یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق (ایف آر اے) کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ یورپ میں رہنے والے تقریباً نصف مسلمانوں کو روزمرہ کی زندگی میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ’’بینگ مسلم اِن ای یو‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ رپورٹ ۲۰۲۲ء کے اعداد و شمار پر مبنی ہے اور مسلم مخالف جذبات میں تیزی سے اضافے کو اجاگر کرتی ہے۔ سروے میں شامل ۴۷ فیصد مسلمان جواب دہندگان نے نسلی امتیاز کا ذکر کیا، جو کہ ۲۰۱۶ء میں ۳۹ فیصد تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو روزگار کی تلاش (۳۹ فیصد) اور کام کی جگہ پر (۳۵ فیصد) امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس نے ان مسائل کے دیگر شعبوں جیسے رہائش، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر اثرات کو بھی اجاگر کیا۔ خاص طور پر، جو خواتین مذہبی لباس پہنتی ہیں، وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ نسلی امتیاز کا شکار ہوتی ہیں جو ایسا نہیں کرتیں، اور یہ شرح ۲۰۲۲ء میں ۴۵ فیصد تک پہنچی، جب کہ ۲۰۱۶ء میں یہ ۳۱ فیصد تھی۔ ۱۶ سے ۲۴ سال کی مسلم خواتین کو ۵۸ فیصد زیادہ واقعات کا سامنا ہے۔
ہاؤسنگ مارکیٹ میں بھی امتیازی سلوک کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، جہاں ۳۵ فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں امتیازی سلوک کی وجہ سے کرایہ یا مکان خریدنے میں مشکلات پیش آئیں۔ ۲۰۱۶ء میں یہ شرح ۲۲ فیصد تھی۔ رپورٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جن میں تقریباً نصف (۴۹ فیصد) کو نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ایف آر اے کے ڈائریکٹر سرپا روتیو نے صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی اور امتیازی سلوک میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انہوں نے اس کی وجوہات میں مشرق وسطیٰ میں تنازعات اور مسلم مخالف بیانات کو قرار دیا۔ روتیو نے اس بات پر زور دیا کہ ہر شخص کو اپنے رنگ، پس منظر یا مذہب سے قطع نظر محفوظ اور محترم محسوس کرنے کا حق ہونا چاہیے۔