سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر) کی سفارشات پر روک لگا دی ہے، جس سے مدارس کو حکومت کی طرف سے ملنے والی فنڈنگ جاری رہے گی۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ غیر منظور شدہ مدارس کے طلبا کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کی سفارشات کو بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل کی گئی ایک عرضی پر سنایا گیا جس میں اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر اعتراض کیا گیا تھا۔
عدالت نے مرکزی حکومت، تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے اتر پردیش اور تریپورہ حکومتوں کی اس ہدایت کو چیلنج کیا تھا جس میں غیر منظور شدہ مدارس کے طلبا کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں این سی پی سی آر کی جون 2023 میں جاری کردہ سفارشات کو بھی معطل کر دیا اور حکم دیا کہ ریاستوں کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی حکم پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ عدالت نے جمعیۃ علماء ہند کو اجازت دی کہ وہ اتر پردیش اور تریپورہ کے علاوہ دیگر ریاستوں کو بھی اس مقدمے میں شامل کرے۔
این سی پی سی آر نے اپنی سفارشات میں مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ وہاں بچوں کو معیاری تعلیم اور مڈ ڈے میل جیسی سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔ کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ مدارس میں صرف مذہبی تعلیم دی جاتی ہے جس سے بچے باقی تعلیمی میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ نیز، کمیشن نے کہا تھا کہ مدرسہ بورڈز تعلیم کے حقوق کے قانون (آر ٹی آئی) پر عمل نہیں کرتے اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے بیدار نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد مدارس میں سرکاری فنڈنگ جاری رہے گی اور این سی پی سی آر کی سفارشات پر عمل نہیں ہوگا، جب تک کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ نہیں آجاتا۔