کتاب "تحفۃ العارفین" کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آ گیا
بندہ اور خدا کے درمیان کسی حجاب کا حائل نہ ہونا ہی حقیقی عرفان ہے، معرفت پروردگار کو ہی دین کہتے ہیں اور اللہ کی معرفت اسی وقت حاصل ہوگی جب انسان خود اپنی معرفت حاصل کر لے، اپنی حیثیت کو پہچان لے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جو معرفت پروردگار کو حاصل کر لیتا ہے تو سید العارفین امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرمان کی روشنی میں وہ اس خدا کی عبادت کرتا ہے جس کا چشم دل سے مشاہدہ کرتا ہے، اس کی عبادت نہ جہنم کے خوف میں ہوتی ہے اور نہ جنت کے شوق میں ہوتی ہے بلکہ وہ لائق عبادت سمجھ کر اپنے معبود کی عبادت کرتا ہے۔
اگرچہ اہل تصوف نے حق کے بہت سے نعرے لگائے اور کمال تصوف کے بہت سے جملات ورد زبان کئے کہ عام اذہان انسانی نے انہیں معرفت کا نمونہ سمجھا لیکن ان کے نعروں میں کہیں "العیاذ باللہ” لامحدود محدود نظر آتا ہے تو کہیں لا شریک شریک نظر آتا ہے۔ لیکن جنہوں نے بہ ذریعہ اہل بیت اطہار علیہم السلام معرفت پروردگار کی منزلوں کو طے کیا تو انہیں ہر ممکن میں واجب کے جلوے نظر آتے ہیں۔
جب معرفت میں پختگی ہوتی ہے تو انسان وہی دیکھتا ہے جو خدا چاہتا ہے، وہی سنتا ہے جو مالک چاہتا، وہی کرتا ہے جو معبود کی مرضی ہوتی ہے۔ نہ اسے دنیا کا کوئی غم غمگین کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی خوشی اسے خوشحال کر سکتی۔ وہ نہ کسی کی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی ملامت سے ملول ہوتا ہے۔
حصول معرفت کا بہترین ذریعہ قرآن کریم اور اسکی آیتیں ہیں۔ قرآن کریم کے بعد عِدلِ قرآن یعنی اہلبیت علیہم السلام کے تعلیم کردہ احکام، دعائیں اور نمازیں ہیں۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضا حیدر زیدی ,مدیر حوزہ علمیہ حضرت غفرانمآب لکھنو کی تالیف کردہ کتاب "تحفۃ العارفین” معرفت پروردگار کے سلسلہ میں بہترین رہنما ہے۔
مولف کی گرانقدر تالیف 6 ابواب پر مشتمل ہے۔ جسمیں منتخب قرآنی سوروں اور آیتوں کے فضایل و فواید، معصومین علیہم السلام کی تعلیم کردہ دعائیں اور مستحب نمازوں اور انکے فضایل و فواید شامل ہیں۔
کتاب کے مطالعہ سے قاری کے لئے واضح ہو جائے گا کہ اگرچہ یہ اعمال و ادعیہ کی کتاب ہے لیکن اس میں کہیں گلشن عقائد سے توحید کے پھول ہیں تو کہیں نبوت و ولایت کے پھول ہیں تو کہیں معاد کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح متعدد مقامات پر فقہی احکام مرقوم ہیں وہ بھی موجودہ مراجع کرام دامت برکاتہم کے فتاویٰ کی روشنی میں احکام فاضل مولف نے نقل کئے ہیں تو کہیں اسلامی اخلاق کا بیان ہے۔
المختصر "جامعیت”، "اعتبار و سندیت” اور "فلسفہ دعا” اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے۔
آخر میں دو نکات کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے کہ تمام تر دنیوی وسائل کی فراہمی کے باوجود اکثر اوقات انسان ایسی مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے جس میں خدا کے علاوہ کوئی چارہ ساز نظر نہیں آتا۔ دوسرے جب دور حاضر میں ہر جانب ایسے گمراہ کن منگھڑنت وردوں کا بازار گرم ہو جس سے انسان خدا سے نزدیک ہونے کے بجائے دور ہو رہا ہو۔ نہ صرف اعمال بلکہ عقائد کی بنیادیں بھی ہلانے کی ناکام کوششیں جاری ہوں تو ضروری تھا کہ ایک ایسا منتخب مجموعہ پیش کیا جائے جو نسل حاضر و آئندہ کے لئے مشعل راہ ہو۔