لکھنو۔ آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سید صائم مہدی آل غفران مآب نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا: میں نے پہلے دن وقف ایکٹ میں ترمیم کی مخالفت کی تھی۔ کیونکہ یہ ایکٹ ترمیم مسلمانوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے اور حکومت کا یہ کہنا کہ ہم مسلمانوں کے فائدہ کے لئے کر رہے ہیں عجیب بات ہے۔
پھر حکومت نے ایک کمیٹی بنادی۔ کمیٹی نے ملک بھر سے رائے طلب کی۔ حقیر نے بھی اپنی تحریری رائے ارسال کر دی۔ آج اخبارات سے اس کا علم ہوا کہ جے پی سی کے جلسہ سے اپوزیشن نے بائیکاٹ کر دیا۔
پڑھ کر تعجب ہوا۔ اپوزیشن بائیکاٹ اسی وقت کرتے ہیں جب اس کو بات کہنے کا موقع نہیں ملتا یا رائے درج کرانے میں دشواری ہوتی ہے اور وہ اپنی بات کو صحیح خیال کرتی ہیں۔ کمیٹی کی رپورٹ بھی جلد عوام کے سامنے آ جائے گی۔ لیکن عوام کو اپوزیشن کے بائیکاٹ سے سوچنے کا موقع تو مل گیا کیونکہ اپوزیشن میں صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی کمیٹی کے ممبر ہیں اور وہ لوگ ایکٹ میں ترمیم نہیں چاہتے۔
اس کو کہتے ہیں جمہوریت۔ نہیں معلوم مرکزی سرکار وقف ایکٹ ہی میں ترمیم کیوں چاہتی ہے۔ اگر ترمیم ہی کرنا ہے تو پھر آزاد جمہوری ملک ہندوستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کے مذہبی جگہوں کے لئے وہی قانون ایک نافذ ہو جو وقف ایکٹ قانون بنایا جائے۔
واضح رہے کہ ہندوستان کے پارلیمنٹ دہلی میں مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی بل پیش کیا، جس میں مسلم اوقاف کو کافی نقصان پہنچے گا۔ اس لیے بلا تفریق اہل سنت و شیعہ سب اس وقف ترمیمی بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نیند اپوزیشن جماعت بھی اس بل کے خلاف ہے۔