صوبہ ختلان میں تاجکستان کی حکومت نے داعش خراسان کے شدت پسند سنی گروپ جیسے انتہا پسند گروپوں میں شامل نوجوانوں سے مقابلے کے لئے گھر گھر مہم کا آغاز کیا ہے۔
یہ اقدام خاص طور پر روس میں کام کرنے کے دوران ان گروپوں کی صفوں میں تاجک شہریوں کی بھرتی کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد کیا گیا ہے۔ اس مہم کا مقصد گھرانوں کو انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کرنا اور نوجوانوں کو ان گروہوں سے دور رہنے کی ترغیب دینا ہے۔اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
امام علی رحمان کی قیادت میں تاجکستان کی حکومت نے ملک کے نوجوانوں کی جانب سے شدت پسند گروہوں خاص طور پر داعش خراسان کے انتہا پسند سنی گروپ میں شمولیت کے سلسلہ میں بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد صوبہ ختلان اور دیگر علاقوں میں ایک بڑے پیمانے پر مہم شروع کی ہے۔
یہ مہم 1800 لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ شروع ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے، جو اپنے گھروں میں جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہونے کے خطرات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ داعش کے شدت پسند سنی گروپ کی صفوں میں لڑنے والے زیادہ تر شہریوں کو اس گروپ نے روس میں کام کے دوران بھرتی کیا تھا۔
گذشتہ تین برسوں میں کچھ تاجک شہریوں نے ایران اور روس سمیت مختلف ممالک میں شدت پسند سنی گروپ داعش سے متعلق دہشت گردانہ حملوں میں حصہ لیا ہے۔اس مہم کا مقصد گھرانوں کو انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کرنا اور نوجوانوں کو خاص طور سے بیرون ملک دہشت گرد گروپوں میں شامل نوجوانوں کو اپنی جانب جذب کرنا ہے۔
مقامی حکام کو ان نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں بھی تشویش ہے جنہوں نے شدت پسند گروپوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ تاجکستان میں غربت اور بے روزگاری انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے اہم عوامل کے طور پر کام کرتے ہیں اور اس رجحان سے نمٹنے کے لئے شعور بیدار کرنے کے علاوہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں تاجک حکومت بیداری اور سماجی مدد بڑھا کر نوجوانوں کو جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔