جبر و تشدد کے سایہ میں ٹیونس کے انتخابات، عرب میں بھار کا خواب چکنا چور
ٹیونس میں اتوار کو صدارتی انتخابات ہوے لیکن یہ انتخابات اپوزیشن کے وسیع جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سایہ میں ہوں گے۔صدر جمہوریہ قیس سعید، جن کے ناقدین جیل میں ہیں بظاہر ان کی کامیابی آسان لگ رہی ہے۔ گذشتہ دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صرف 11 فیصد ووٹروں نے حصہ لیا تھا۔یہ صورتحال اس ملک میں جمہوریت کے لئے ایک سنگین دھچکا ہے جسے عرب میں بہار کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے اور ٹیونس میں مزید تنہائی کا خدشہ پیدا کرتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھ یہ رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔ ٹیونس میں اتوار کو صدارتی انتخابات ایک ایسی صورتحال میں ہوے جب سیاسی ماحول انتہائی جابرانہ ہو گیا ہے اور موجودہ صدر جمہوریہ قید سعید کو تنقید کے سبب پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ جیل میں اپنے اہم ناقدین کے ساتھ سعید کی کم سے کم چیلنج کے ساتھ جیتنے کی امید ہے۔
یہ صورتحال 2011 کی عرب بہار کی جائے پیدائش کہلانے والے ملک کے لئے ایک سنگین دھچکے کو ظاہر کرتا ہے۔ گذشتہ دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 90 لاکھ ووٹرز میں سے صرف 11 فیصد نے حصہ لیا تھا اور اسی تناسب سے ان انتخابات میں ووٹرز کی کم موجودگی سعید کی صدارت سے عدم اطمینان کی نشاندہی کر رہی ہے۔
2019 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے انہوں نے بتدریج ملکی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور گذشتہ سال غیر دستاویزی تارکین وطن کو دبا کر عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ غیر دستاویزی تارکین وطن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو قانونی اجازت نامہ یا ویزا کے بغیر کسی ملک میں داخل ہوئے یا مقیم ہوں۔ یہ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر بہتر زندگی کی تلاش کرتے ہیں بشمول حفاظت کی تلاش، جنگ سے فرار، غربت یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں۔
بہت سے ممالک میں ان تارکین وطن کو حراست، ملک بدری اور سماجی خدمات اور قانونی حقوق تک رسائی کی کمی جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیونس کے آزاد انتخابی کمیشن نے 17 امیدواروں کی ابتدائی فہرست کو کم کر کے تین کر دیا ہے جبکہ ایک امیدوار آیشی زیمل کو جعلی دستاویزات پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ان جبر اور قانونی تبدیلیوں نے جمہوری عمل کو بہت متاثر کیا ہے اور ٹیونس میں جمہوریت کو پس پشت ڈالنے کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان مسائل کے علاوہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دوہرے ہندسے کی مہنگائی جیسے معاشی مسائل نے بھی سماجی تناؤ میں اضافہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس عمل کے جاری رہنے سے ٹونس میں جمہوریت کی راہ مزید ہموار ہوگی۔