قرآن میں "ارھاب" کا معنی دہشت گردی نہیں ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور جمعہ 30 ربیع الاوّل 1446 ہجری کو منعقد ہوا۔ جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے سورہ انفال کی آیت 60 کا حوالہ دیتے ہوئے اور لفظ "ارھاب” کی وضاحت کرتے ہوئے، جو آج کل کبھی کبھی دہشت گردی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، فرمایا: یہاں "ارھاب” کا معنی دہشت گردی نہیں ہے اور ماضی سے لے کر آج تک بعض بد خواہوں اور کافروں نے اسلام کے بارے میں اس قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ قرآن کریم قتل کے احکام سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن یہ دعوی ویسا ہی ہے کہ وہ "لا الہ الا اللہ” میں دوسرا حصہ نکال کر صرف پہلا حصہ جو "لا الہ” ہے بیان کریں اور یہ نتیجہ اخذ کریں کہ کوئی خدا نہیں ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: بدقسمتی سے ایسے معاملات میں ایسی آیات کو پہلے اور بعد میں نہیں پڑھا جاتا اور ناکافی اور نا مکمل معلومات کے ساتھ اس طرح کے غلط تاثرات اور فیصلے کئے جاتے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: ایسی تمام آیتیں مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لئے دعوت دیتی ہیں، جب دشمنوں نے ان پر حملہ کیا ہو اور ان آیات میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کو حملہ کرنے، لڑنے اور ابتدائی طور سے جہاد کا حکم نہیں دیا ہے۔