اسلامی دنیاخبریں

سوشل میڈیا میں کچھ فلسطینی صارفین کے درمیان "اشھد ان علیا ولی اللہ" کی صدا نشر

حالیہ دنوں میں "اشھد ان علیا ولی اللہ” کی صدا جو شیعوں کے اہم شعائر میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے، سائبر اسپیس میں بعض سنی فلسطینی صارفین میں غیر متوقع طور پر نشر ہو رہا ہے۔

اس رجحان نے مذہبی اور سیاسی برادریوں کے درمیان مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اسے عالم اسلام میں مذہبی تعامل کے ماحول میں ممکنہ تبدیلیوں کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

حالیہ دنوں میں بعض فلسطینی صارفین کے درمیان "اشھد ان علیا ولی اللہ” کی وسیع پیمانے پر اشاعت نے خاص طور پر سائبر اسپیس میں بہت سے سیاسی اور مذہبی مبصرین کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

یہ جملہ جسے شیعوں کے معروف شعائر میں شمار کیا جاتا ہے، فلسطینی سنی صارفین کے ایک حصے نے سوشل نیٹ ورک پر شیئر کیا ہے۔

ایک طرف تو اس رجحان نے مختلف مذہبی گروہوں میں مثبت اور منفی رد عمل کا اظہار کیا ہے اور دوسری طرف اسے اسلامی معاشروں میں تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کال کا پھیلاؤ مختلف اسلامی کمیونٹیز کی ایک دوسرے سے بیداری اور قربت کا عکاس ہو سکتا ہے، خاص طور پر انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان ثقافتی اور مذہبی تبادلے میں اضافے کو دیکھتے ہوئے۔

تاہم کچھ دوسرے ماہرین اس کی اشاعت کے حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں اور مختلف تجزیے پیش کرتے ہیں۔

بعض مذہبی اور سیاسی تجزیہ کار فلسطینی صارفین میں "اشھد ان علیا ولی اللہ” کی صدا کو شیعوں کی قانونی حیثیت اور امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فوری خلافت کے ثبوت کے طور پر بیان کرتے ہیں جو 14 صدیوں سے زیادہ پر محیط ہے۔

ان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں جو بنیادی طور پر سنی اور حتی کہ ناصبی ہیں، میں اس دعوت کا پھیلنا اصل اور تاریخی سچائی کی جانب واپسی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس پر شیعوں نے ہمیشہ زور دیا ہے۔

بہت سے سیاسی اور مذہبی تجزیہ نگاروں کے نقطہ نظر سے اس رجحان کو مذہبی بیداری کی ایک قسم قرار دیا جا سکتا ہے جو امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے جانشین کے طور پر نمایاں کردار کے بارے میں آگاہی کو بڑھاتا ہے۔

متذکرہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پیشرفت ان گہری تاریخی اور روحانی اثرات کو ظاہر کرتی ہے جو اسلامی معاشروں میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور اب ورچوئل کمیونیکیشن کی وسعت کے ساتھ ان عقائد کو وسیع پیمانے پر پیش کرنے اور قبول کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب فلسطین عالم اسلام کے ایک اہم خطہ کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں سنیوں کی اکثریت ہے اور اس طرح کی پیشرفت کے علاقے کے مذہبی اور سماجی تعلقات میں وسیع نتائج ہو سکتے ہیں۔
لہذا اس عمل کو، اس کے اسباب اور نتائج کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لئے مزید تفصیلی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اس کال کی اشاعت سائبر اسپیس میں نئی پیچیدگیوں کی نشاندہی کرتی ہے جو مستقبل میں مذہبی اور سماجی تعاملات پر دیر پا اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button