عام شہریوں کے خلاف طالبان کے ظلم کا سلسلہ جاری، ایک ماہ میں 80 گرفتاریاں، 38 پھانسی
جب سے طالبان نے افغانستان میں دوبارہ کنٹرول حاصل کیا ہے وہ گذشتہ 3 برسوں میں سینکڑوں سابق فوجیوں اور شہریوں کو مختلف بہانوں سے گرفتار، تشدد اور قتل کر چکے ہیں۔
ایک ملکی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق صرف رواں ماہ 80 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور تقریبا 40 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
معافی کے اپنے وعدوں کے باوجود طالبان نے سابق فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کو گرفتار کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔
ستمبر 2024 میں طالبان نے 18 صوبوں میں تقریبا 80 افراد کو گرفتار کیا اور 13 صوبوں میں 25 سے زائد افراد کو پھانسی دے دی۔
متاثرین میں سابق فوجی اہلکار اور عام شہری بھی شامل تھے جن پر مختلف جرائم کا الزام تھا۔
طالبان نے تنقیدی مواد شائع کرنے پر لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کی داڑھی منڈوا دی۔ ان لوگوں کا تعلق طالبان مخالف محاذوں سے تھا۔
ایک ملکی میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر جبر اور سینسر شپ کی وجہ سے پھانسیوں اور جیلوں کی اصل تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین صورت میں اس گروہ کے سربراہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس گروہ کی جیلوں میں متعدد قیدی مارے گئے ہیں۔
گذشتہ ہفتہ طالبان نے تخار صوبہ میں 6 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ان کی لاشیں بھارک شہر کے مرکز میں ایک بازار میں آویزاں کر دی تھی۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ طالبان نے لاشوں کو بھارک بازار میں کئی گھنٹوں تک عوامی نمائش پر چھوڑ دیا۔
جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے غیر قانونی سلسلہ وار اور پر اسرار قتل میں اضافہ ہوا ہے۔
ان واقعات کے سلسلہ میں ذرائع اور متاثرین کے لواحقین اکثر طالبان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، حالانکہ یہ گروپ عام طور پر نامعلوم مسلح گروہوں پر الزام لگاتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ انہوں نے قومی سلامتی قائم کرلی ہے۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ دو ہفتہ قبل دایکندی اور غور صوبوں کی سرحد پر 14 ہزارہ شیعہ افراد کو شہید کیا گیا تھا۔
اس حملہ کی ذمہ داری شدت پسند سنی گروپ داعش نے قبول کی تھی۔
سابق سیکورٹی فورسز کے علاوہ طالبان نے عام شہریوں اور سابق سرکاری ملازمین کو بھی مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے۔
گزشتہ ماہ میں طالبان نے تقریبا 65 افراد کو مختلف وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا جن میں افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ کے ساتھ تعاون کے دعوے سے لے کر داڑھیاں منڈوانے، خانہ بدوشوں کے ساتھ لڑائی، مزاحیہ مواد شائع کرنے اور طالبان پر تنقید کرنے تک شامل ہے۔
جبکہ اطلاعات کے مطابق بہت سے قیدیوں کو اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔