خبریںدنیاہندوستان

ہندوستان کی عدالت نے کربلا کے نام سے امام بارگاہ کی ملکیت پر شیعوں کے دعوے کو مسترد کر دیا

ایک ہندوستانی عدالت میں ایک طویل عرصہ سے چل رہا ہے قانونی مقدمہ میں ہائی کورٹ نے شیعوں کے حق میں فیصلہ دینے والے نچلی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق یعنی اندور میونسپلٹی کے حق میں فیصلہ دیا۔

مدھیہ پردیش کی ریاست اندور کی عدالت نے شہر کے مرکز میں لال باغ کے قریب واقع کربلا نامی تقریبا 7 ہیکٹر اراضی کے مالکانہ حق کے بارے میں اس شہر کی میونسپلٹی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلے نے شیعہ وقف بورڈ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے میونسپلٹی کو اس اراضی کا قانونی مالک قرار دیا۔

نچلی عدالت کا ابتدائی فیصلہ 2019 میں شیعہ وقف بورڈ کے حق میں جاری ہوا تھا لیکن اب ہائی کورٹ میں جہاں اس کیس کا جائزہ لیا گیا ابتدائی فیصلے کو منسوخ کر کے اندور میونسپلٹی کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ اندور میونسپلٹی نے دعوی کیا کہ یہ اراضی میونسپلٹی کی ہے اور سرسوتی ندی کے قریب اس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ محرم کے مہینے میں عزاداری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شیعہ وقف بورڈ اور حسینیہ کربلا کے بورڈ آف ٹریسٹیز نے عدالت میں دلیل دی کہ یہ زمین 150 سال قبل اندور کے حکمران نے شیعہ برادری کو عزاداری کے لئے مختص کی اور 29 جنوری 1984 کو وقف جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہوئی تھی۔

اپنے فیصلے میں عدالت کے جج نے فیصلہ دیا کہ اندور میونسپلٹی اپنی ملکیت ثابت کرنے میں کامیاب ہے۔عدالت نے تسلیم کیا کہ مسلم کمیونٹی نے 150 سال سے محرم کی عزاداری کے لئے اس اراضی کا ایک حصہ استعمال کیا ہے لیکن بورڈ آف ٹریسٹیز یہ ثابت کرنے کے لئے خاطر خواہ ثبوت فراہم نہیں کر سکا کہ مذکورہ اراضی وقف جائیداد ہے۔

اس فیصلہ نے نچلی عدالت کے 2019 کے فیصلے کو منسوخ کر دیا اور اندور میونسپلٹی کو کربلا کے قانونی مالک کے طور پر تسلیم کیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button