9 ربیع الاوّل! عید زہرا سلام اللہ علیہا
جس کے غم میں سوگوار تھے اسی کی خوشی میں خوش ہیں
ایمان و عقیدہ کی بلندی تک پرواز کے لئے دو پر ہیں ایک ولایت ہے اور دوسرے برأت ہے۔
ولایت محبت کا نتیجہ ہے اور برأت نفرت کا نتیجہ ہے۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ ولایت اور برأت کا تعلق صرف دین و آئین سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام دین فطرت ہے لہذا اس کا ہر حکم انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔
انسان جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے قُرب کی تمنا کرتا ہے، اس سے دوری سے کراہت محسوس کرتا ہے، اس کی دلی خواہشیں محبتِ محبوب کی عکاس ہوتی ہیں، اس کے اذہان کی فکریں مرضی محبوب کی غماز ہوتی ہیں، اس کی زبان پر وہی ہوتا ہے جو اس کا محبوب چاہتا ہے، اس کا عمل محبوب کی مرضی کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر عبادت کی نیت میں پہلی شرط "قربۃ الی اللہ” ہے یعنی ہم جو نماز، روزہ یا حج انجام دے رہے ہیں صرف اللہ تبارک و تعالی سے تقرب کے سبب انجام دے رہے ہیں۔ غیر خدا کی خوشنودی کا تصور عبادتوں کو برباد کر دیتا ہے۔
اسی طرح برأت دشمنان خدا سے دوری اور نفرت ہے۔
اللہ تبارک و تعالی نے معصومین علیہم السلام کو کائنات میں اپنا نمائندہ اور خلیفہ مقرر کیا، ان کی خواہشیں، افکار، کلام اور اعمال مرضی معبود کے عین مطابق تھے لہذا اللہ نے جس طرح اپنی محبت کو اور اپنے دشمنوں سے دشمنی کو معیار بندگی قرار دیا اسی طرح معصومین علیہم السلام کی محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی کو اسلام و ایمان کا معیار قرار دیا۔
2 ماہ 8 دن غم اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ خاصان خدا نے ان ایام میں غم منایا لہذا محبت و ولایت کا تقاضہ یہ ہے کہ غم منایا جائے اور عزاداری کی جائے۔
9 ربیع الاول کو خدا و خاصان خدا کا دشمن واصل جہنم ہوا، اہل بیت علیہم السلام نے خوشی منائی، حجت کبریاء ولی خدا حضرت زین العباء امام زین العابدین علیہ السلام کے لب ہائے مبارک پر تبسم کا گلاب کھلا لہذا خوشی منانا ولایت کے عین مطابق بلکہ اس کا تقاضہ ہے۔
اسلام کا پہلا کلمہ "لا الہ الا اللہ” (کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے) پہلے غیر خدا سے برأت ہے اس کے بعد اللہ کا اقرار ہے۔ اسی طرح معصومین علیہم السلام سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے دشمنوں سے برأت کی جائے۔ لہذا جھوٹے ہیں وہ لوگ جو معصومین علیہم السلام سے اظہار محبت اور ان کے فضائل بیان کرنے کے بجائے اپنی دنیوی حوس اور دنیاوی تمناؤں کی تکمیل کے لئے دنیا داروں کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔
غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر
اسی طرح وہ بھی قابل قبول نہیں جو محبت کا نام تو لیں لیکن ان کے دشمنوں سے برأت نہ کریں۔
محبت اور برأت دونوں میں شرط ہے کہ صرف زبانی نہ ہو بلکہ دل سے اہل بیت علیہم السلام سے محبت کریں، زبان سے اظہار کریں اور اعمال سے ان کی تأسی کریں۔ اسی طرح دل سے اللہ، رسول اور اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے نفرت کریں، صرف زبان نہیں بلکہ اعمال سے بھی اس کا اظہار کریں۔
معصومین علیہم السلام کی زیارات جیسے کبیرہ، عاشورہ، اربعین، وارثہ بلکہ تمام زیارتوں میں ہمیں جہاں ولایت و محبت کی تعلیم و تربیت ملتی ہے وہیں ان کے دشمنوں سے برأت کا بھی حکم ملتا ہے۔