پاکستان میں ہزاروں لوگوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لئے احتجاج کیا
سابق وزیراعظم عمران خان کی قیادت والی پاکستان تحریک انصاف نے فروری میں متنازعہ انتخابات کے بعد پارٹی کی طاقت کا مظاہره کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک ریلی نکالی۔اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر نے رپورٹ تیار کی ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے سیاسی طور پر محرک الزامات کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اتوار کو اسلام آباد میں ریلی نکالی جو فروری میں متنازعہ قومی اور علاقائی انتخابات کے بعد پارٹی کی طاقت کا پہلا مظاہرہ ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں عمران خان کے حامیوں کو ملک کے مختلف حصوں سے جاری حکومت کی خلاف احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
عمران خان کے قریبی ساتھی حماد اظہر نے اس مظاہرے کی افتتاحی تقریر میں کہا ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک عمران خان جیل سے رہا نہیں ہو جاتے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل اور تحریک انصاف پارٹی کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے بھی اس مظاہرے میں کہا کہ عمران خان واحد شخص ہیں جو اس ملک کو کرپٹ اور نااہل سیاست دانوں کے چنگل سے بچا سکتے ہیں۔
اسلام آباد حکومت نے ممکنہ بد امنی کو روکنے کے لئے شہر کے اہم داخلی راستوں کو شپنگ کنٹینرز اور فسادات مخالف پولیس کے ساتھ بند کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ پی ٹی آئی کے درجنوں کارکن کامیابی کے ساتھ کنٹینرز کو ایک طرف ڈھکیل رہے ہیں تاکہ ایک داخلی مقام پر مظاہرین کے لئے راستہ بنایا جا سکے۔ اس احتجاجی ریلی میں مشتعل مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے۔
گذشتہ سال عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستانی عدالت نے تحریک انصاف کو اسلام آباد کے نواحی علاقے میں جلسے کی اجازت دی۔
سابق کرکٹ کھلاڑی عمران خان کو اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وہ اگست 2023 سے جیل میں ہیں اور اسی سال 9 مئی سے تشدد بھڑکانے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے جس دن ان کے حامیوں نے کھل کر فوجی تنصیفات پر حملہ کیا تھا۔
ان کا کیس ان کی بے مثال گرفتاری اور جاسوسی کے الزام میں ایک سیکورٹی اہلکار کے کورٹ مارشل کی وجہ سے بھی پیچیدہ ہو گیا ہے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ وزیراعظم ہونے کے وقت عمران خان کے قریب تھا۔
عمران خان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور اس کے علاوہ حالیہ مہینوں میں ان کی تمام سزائیں یا تو معطل کر دی گئی ہیں یا ان کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف پر پابندی کی کوشش کو جمہوری اقدار کے لئے بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے سیاسی مایوسی کی بو آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے جولائی میں یہ بھی پایا کہ عمران خان کی نظر بندی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد انہیں سیاسی عہدے کے لئے نااہل قرار دینا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ظلم کے عوامل کے خلاف مزاحمت کریں گے چاہیے جیل میں ان کی موت ہو جائے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے کھل کر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے ملک کے ججز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعوی کیا کہ انہیں کوئی عقل نہیں اور وہ ملک کو انتشار کی طرف لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ میں نے طاقتور کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کیسے کی، میں واضح کر دوں میں وقت کے یزید کے سامنے جھکنے کے بجائے جیل میں مرنا پسند کروں گا۔