ممبئی۔ جمعہ 6 ستمبر 2024 کو خوجہ شیعہ جامع مسجد پالا گلی میں نماز جمعہ امام جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی صاحب قبلہ کی اقتدا میں ادا ہوئی۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے نمازیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یہ ایام عزا کا آخری جمعہ ہے، اس کے بعد ہم زندگی کے ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہوں گے۔ دین اسلام میں دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہیں اور دونوں کا بڑا مرتبہ ہے ایک طرف اہل بیت علیہم السلام اور ان کے دوستوں سے ولایت، محبت، لگاؤ اور دوسری طرف ان کے دشمنوں سے اور ان کے دشمنوں کے چاہنے والوں سے اور ان کے دشمنوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں سے برات اور دوری بھی لازم و ضروری ہے.
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے "دین میں کوئی جبر نہیں ہے ہدایت کے راستے واضح کر دیے گئے جو طاغوت کا انکار کرے گا اور اللہ پر ایمان لائے گا تو اس مضبوط رسی سے متمسک ہوگا جو رسی کسی صورت میں ٹوٹنے والی نہیں ہے.” یعنی دو چیزیں ہیں ایک طاغوت کا انکار، دوسرے اللہ پر ایمان لانا۔ اب جب ہم زیارت عاشورا پڑھتے ہیں ہم خدا سے قریب ہوتے ہیں دو چیزوں کے ذریعہ ایک اہل بیت علیہم السلام کی محبت کے ذریعہ، ان کی ولایت کے ذریعہ۔ دوسرے ان کے دشمنوں سے برات کے ذریعہ۔
زیارت عاشور معتبر ترین زیارت ہے۔ اگرچہ یہ معصوم کی زبان سے جاری ہوئی ہے لیکن یہ حدیث قدسی کا درجہ رکھتی ہے یعنی کلمات الہی ہیں جو معصوم کی زبان پر جاری ہوئے ہیں۔ امام جمعہ ممبئی نے زیارت عاشورا کے فقرات پڑھتے ہوئے فرمایا: ہم خدا سے قریب ہونا چاہتے ہیں اس کے رسول سے قریب ہونا چاہتے ہیں، امیر المومنین علیہ السلام سے قریب ہونا چاہتے ہیں، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے قریب ہونا چاہتے ہیں، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے قریب ہونا چاہتے ہیں دو چیزوں کے ذریعہ سے، ایک ان کی ولایت اور دوسرے ان کے دشمنوں سے برات کہ اگر کوئی شخص خدا سے قریب ہونا چاہتا ہے اس کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام سے محبت بھی ضروری ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے برات بھی ضروری ہے۔
اگر کوئی آدمی یہ سوچتا ہے کہ ہم صرف اہل بیت علیہم السلام سے ولایت رکھ کر، ان سے دوستی رکھ کر خدا سے قریب ہو سکتے ہیں۔ دشمنان اہل بیت سے برات ضروری نہیں ہے تو وہ کسی اور دنیا میں رہتا ہے۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ صرف اہل بیت علیہم السلام سے محبت کافی نہیں ہے بلکہ محبان اہل بیت سے محبت بھی لازم ہے، فرمایا: زیارت عاشورا میں پڑھتے ہیں۔ ہم آپ سے قریب ہونا چاہتے ہیں آپ کی دوستی سے اور ان لوگوں کی دوستی سے جو آپ سے دوستی رکھتے ہیں یعنی اہل بیت علیہم السلام کو بھی چاہنا ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کو بھی چاہنا ہے۔ دل میں اہل بیت علیہم السلام کی بھی محبت بسا کے رکھنا ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں سے بھی محبت کرنی ہے۔
اسی طرح برات کرنی ہے ان کے دشمنوں سے اور ان لوگوں سے جو ان کے دشمنوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان لوگوں سے جو ان کے دشمنوں کو دوست رکھ رہے ہیں اور ان لوگوں سے جو ان کے دشمنوں کی پیروی کر رہے ہیں۔
مولانا سید احمد علی نے فرمایا: اہل بیت علیہم السلام سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والا، لوگوں کو بلانے والا، اتحاد کی دعوت دینے والا کون ہو سکتا ہے؟ اہل بیت علیہم السلام سے مروی تمام زیارتوں کو ملاحظہ فرمائیں تو اس میں اہل بیت علیہم السلام پر سلام کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں سے برات بھی ہے۔
آپ زیارت وارثہ پڑھیں تو اس میں پائیں گے کہ خدا کی لعنت ہو اس پر جس نے آپ کو قتل کیا، خدا کی لعنت ہو اس پر جس نے آپ پر ظلم کیا، اور خدا کی لعنت ہو اس پر جو آپ کی شہادت، قتل و ظلم پر راضی ہے۔ قتل کرنے والے، ظلم کرنے والے گزر گئے لیکن راضی رہنے والے آج تک ہیں۔ لہذا ان سے برات ضروری ہے۔