اسلامی دنیامقالات و مضامینمقدس مقامات اور روضے

29 صفر الاحزان غریب الغرباء ؑ کی عالم غربت میں شہادت

باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام  کی  عباسی حاکم ہارون رشید کے طویل مدت اذیت ناک قید خانہ میں مظلومانہ شہادت نے اس کی حکومت کی بنیاد ایسی ہلائی کہ امام علی رضا علیہ السلام نے بلاخوف اپنی امامت کا عام اعلان کیا  یعنی جس طرح امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد یزید پلید نے امام زین العابدین علیہ السلام اور اہل حرم کی رہائی اور مدینہ واپسی میں ہی عافیت سمجھی اور مدینہ پر حملے ( واقعہ حرّہ ) کے وقت خصوصی حکم دیا کہ کوئی فوجی امام سجاد علیہ السلام کو اذیت نہ پہنچائے  ۔ اسی طرح ہارون ملعون بھی امام علی رضا علیہ السلام سے کوئی واسطہ نہ رکھنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھا ۔

آخر ہارون واصل جہنم ہوا اور اس کا بیٹا امین بر سر اقتدار ہوا ، امین و مامون میں جنگ ہوئی ، امین مارا گیا اور مامون پوری اسلامی مملکت کا حاکم ہوا، مامون اپنے باپ ہارون کی طرح یزیدی سفاکانہ روش کے خلاف تھا بلکہ وہ یزید کے باپ کی راہ مکر کا راہی تھا۔ مامون نے علویوں کے قیام کو روکنے اور دیگر مقاصد کے سبب امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے مرو بلایا۔ اس ملعون کی یہی دعوت امام علی رضا علیہ السلام  کے مصائب کا آغاز ہے۔

راوی کا بیان ہے جس وقت حکومت کے کارندے امام علی رضا علیہ السلام کو خراسان لے جانے کے لئے مدینہ آئے  تو اس وقت میں مدینہ میں موجود تھا ، میں نے دیکھا کہ آپ اپنے جد کی قبر سے رخصت ہونے کے لئے متعدد بار قبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے قریب آئے اور پھر رخصت ہوئے اور اس عالم میں با آواز بلند گریہ فرما رہے تھے۔

میں آپؑ کی خدمت میں پہونچا سلام کیا امام علیہ السلام  نے جواب سلام دیا ۔  سفر کی مبارکباد دینی چاہی تو آپ نے فرمایا کہ میں  اب واپس مدینہ نہیں آؤں گا۔  میری موت عالم غربت میں ہوگی اور ہارون کے قریب دفن ہوں گا۔

قبر رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ سے رخصت ہو کر بیت الشرف میں تشریف لائے تو اپنے اعزاء و اقارب کو جمع کیا اور فرمایا: مجھ پر گریہ کرو کیوں کہ میں واپس مدینہ نہیں  آؤں گا۔

مامون نے سفر میں ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں شیعہ نہ رہتے ہوں جیسے کوفہ و قم کے بجائے ، بصرہ  اور بصرہ سے اہواز کا راستہ معین کیا تا کہ راستہ میں کوئی شیعہ نہ ملے۔

جب امام علی رضا علیہ السلام مرو پہنچے تو اس نے پہلے  حکومت کی پیش کش کی جسے آپ نے ٹھکرا دیا تو اس نے ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا  اور امام نے حکومتی مسائل عزل و نصب میں عدم دخالت کی شرط پر ولایت عہدی قبول فرمائی ۔ اگرچہ اس مقام پر جہاں امام علیہ السلام کی فضلیت و حکمت عیاں ہوئی وہیں آپ کی مظلومیت بھی ظاہر ہوئی کہ جسے اللہ نے زمین کا وارث اور کائنات کا حاکم بنایا ہو، اسے ایک گناہگار، بد کردار  غاصب حکومت کی پیش کش کرے اور اپنی ولایت عہدی پر مجبور کرے۔

مامون نے مختلف ادیان و مذاہب کے علماء سے علمی مناظرے کرائے، جسمیں آپ علیہ السلام نے مقابل کو شکست  قبول کرنے پر مجبور کیا ۔ عید کے موقع پر  مامون نے آپؑ کو نماز عید کی امامت کی دعوت دی۔  پہلے تو امام علیہ السلام نے منع کیا لیکن جب اس نے اصرار کیا تو آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انداز میں نماز کے لئے نکلے ، لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو آپؑ کے ہمراہ ہو گیا ۔ پوری فضا تکبیر کی صداؤں سے گونج رہی تھی ۔

 جب مامون کے وزیر فضل بن سہل نے بدلتے حالات دیکھے تو احتمالی نتائج سے مامون کو آگاہ کیا ، اس ملعون نے عین وقت پر آپؑ کو نماز عید کی امامت سے روک دیا ۔ آپؑ بغیر نماز پڑھے  بیت الشرف واپس آ گئے۔

آخر وہ  وقت آ ہی گیا جس کا امام علی رضا علیہ السلام نے متعدد بار تذکرہ فرمایا تھا ۔ خصوصاً جب شاعر اہل بیت دعبل خزائی نے آپؑ کے حضور اہل بیت علیہ السلام کی مصیبت میں مرثیہ پڑھا تو آپؑ نے فرمایا کہ ائے دعبل! میں چاہتا ہوں تمہارے اس کلام میں  دو شعر کا اضافہ کر دوں تا کہ تمہارا کلام مکمل ہو جائے ، دعبل نے عرض کیا : مولا! فرمائیے تو امام علیہ السلام  نے فرمایا:

و قبر بطوس یالها من مصیبه

الحت علی الاحشاء بالزفرات

الی الحشر حتی یبعث‌الله قائماً

یفرج عنا الغم و الكربات

اور طوس میں ایک قبر ہے جس پر اتنی مصیبتیں پڑی کہ غم میں سانس لینے میں آنتیں متاثر ہو گئیں۔ یہ مصیبت کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ خدا ہمارے قائم کو بھیجے گا جو ہمارے غم  و الم کو دور کرے گا۔

دعبل نے پوچھا مولا! طوس میں کس کی قبر ہے ، امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: طوس میں میری قبر بنے گی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button