ایشیاءخبریںدنیا

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر چینی حکومت کی زیادتیوں کے سلسلہ میں اقوام متحدہ کی رپورٹ

انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ نے ہفتہ کے روز سے ایغوروں کے بارے میں اقوام متحدہ کی اہم رپورٹ کو دو سال گزرنے کے بعد دوبارہ جاری کیا ہے۔

اس رپورٹ میں کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کاروائی کی درخواست کی گئی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے سنکیانگ میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

اقوام متحدہ کے سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل ہیچلیٹ نے اپنی چار سالہ مدت ختم ہونے سے چند منٹ قبل 31 اگست 2022 کو سنکیانگ صوبہ میں ایغوروں پر چین کے مظالم پر ایک رپورٹ جاری کی تھی۔

اس وقت سنکیانگ کے رہنے والے اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک یالکول اولیول اپنے والد کو تلاش کر رہے تھے جو 2018 میں لاپتہ ہو گئے تھے۔
لیکن بعد میں انہیں خبر ملی کہ ان کے والد کو ایغور سمجھ کر سنکیانگ کی ایک جیل میں 16 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
چین کے سنکیانگ صوبہ میں اویغور مسلمانوں کی اکثریت ہے جس کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ انہیں بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے اور بیجنگ کی جانب سے ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔
یالکون اولیول نے بتایا: جب رپورٹ سامنے آئی تو میں بہت خوش تھا لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔


استانبول میں رہنے والے 30 سالہ محقق نے جمعہ کے روز رائٹرز کو بتایا: افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے برعکس، صورتحال بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔
چین حکام نے ایغوروں کے ساتھ بد سلوکی اور ان کے خلاف جرائم کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس 131 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے جواب میں اپنا دفاع کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان لنجیان نے اس ہفتہ کہا: چین حکومت تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔
اولیول جو انسانی حقوق کے محافظوں کے بڑھتے ہوئے گروپ کے کارکن ہیں اور یہ کہ چین اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کے لئے پرعزم ہے جس میں سنکیانگ کے کیمپوں اور جیلوں میں قید افراد کی رہائی کے لئے فوری کاروائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
وہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کے دیگر ارکان، وولکر ترک، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ بیجنگ کے انسانی حقوق کے مخالف طریقوں پر بیجنگ کے ساتھ کئی مہینوں کی تفصیلی بات چیت کے بعد چین پر دباؤ بڑھائے۔
اولیول نے اسی طرح ایکس پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا: یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم چین سے نبرد آزما ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک ممتاز محافظ کائنتھروت نے ایک سخت موقف میں چین کے بارے میں اولکر کے رویے کو خوف کی وجہ قرار دیا۔

2022 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سنکیانگ کے مغربی علاقے میں اویغوروں اور دیگر مسلمانوں کی منمانی اور امتیازی حراست بین الاقوامی جرم بن سکتی ہے۔
رپورٹ جاری ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر بننے والے سابق وکیل بول کر ترک نے اس وقت کہا تھا کہ وہ اس تجاویز کے حامی ہیں اور اس کے بعد انہوں نے چین سے بارہا کاروائی اور جواب دہی کا مطالبہ بھی کیا۔
اس دفتر نے اس ہفتہ کہا کہ سنکیانگ میں بہت سے مسائل والے قوانین اور پالیسیاں برقرار ہیں اور انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ مکمل تحقیقات کریں اور ضروری جوابات فراہم کریں۔‌ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر کے ترجمان روینا شیمڈسانی نے کہا: چینیوں سے بہت سی چیزیں پوچھنے کی ضرورت ہے اس لئے ہمیں ان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی ضرورت ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم کس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے ایشیا کے لئے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر مایا وانگ نے بھی اقوام متحدہ میں حکومتوں سے کروائی مطالبہ کرتے ہوئے کہا: سنکیانگ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اپڈیٹ اور حکام کو جواب دینے کے لئے انسانیت دوست ایکشن پلان ستمبر میں جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جانا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button