خبریںدنیاہندوستان

اپنے بچوں کو خدمت عزاداری کی تربیت دیں: مولانا سید احمد علی عابدی

ممبئی۔ جمعہ 30 اگست 2024 کو شیعہ خوجہ جامع مسجد پالا گلی ممبئی میں نماز جمعہ امام جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی کی اقتدا میں ادا ہوئی۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے نمازیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہم ایام عزا کے آخری مرحلے میں ہیں، چند دن اور باقی ہیں، باقی جو اگلے سال زندہ رہے گا وہ عزاداری کرے گا۔ لیکن سوال جو لوگوں کے ذہنوں میں ہوتا ہے اور ہمارے ذہنوں میں ہونا بھی چاہیے کہ ان دو مہینہ آٹھ دن کی عزاداری سے ہم نے کیا سیکھا؟ کیا یہ کوئی سالانہ تقریب ہے جو ہم منا رہے ہیں؟ ہر سال عزاداری ہوتی ہے، اس تکرار کے پیچھے کوئی مقصد ہے؟ کوئی ہدف ہے؟ ہمیں اس مقصد اور ہدف کو معین کرنا ہے عزاداری سے کیا سیکھنا ہے اور اس عزاداری سے ہمیں دنیا والوں کو کیا پیغام دینا؟ تو اس عزاداری سے ہمیں دنیا والوں کو پیغام دینا ہے اور ساری دنیا کے کانوں تک یہ آواز پہنچانی ہے کہ حسینی ظلم کو برداشت نہیں کرتے اور ہم ہر طرح کے ظلم کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے ہیں۔ ہمارا یہ پروٹیسٹ، ہمارا احتجاج جاری ہے اور جاری رہے گا۔

امام جمعہ ممبئی نے فرمایا: اربعین بہترین مثال ہے کہ ہم آج بھی مظلوموں کے ساتھ ہیں اور ظالموں کے مخالف ہیں، اربعین ایک درس ہے، ایک عبرت ہے، ہم دیکھیں کہ امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات کے اثرات کیا ہیں؟ اہل بیت علیہم السلام نے کون سی تعلیمات دی ہے ہمیں، ان تعلیمات کو سیکھ کر اپنے محلے میں، اپنے گھر میں عملی کرنا چاہیے۔ اربعین کا ایک اہم پیغام یہ ہے کہ بلا کسی تفریق کے دوسروں کی راحت کی خاطر اپنے آرام کو قربان کر دینا۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے فرمایا: زیارت اربعین میں میزبانی کرنے والے زائر سے یہ نہیں پوچھتے کہ کس ملک سے ہو؟ حتی یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ بس تم کربلا آئے ہو تم حسینی ہو۔ امام حسین علیہ السلام کے نام پر سب کی میزبانی اور خدمت ہوتی ہے۔ یہ جذبہ خدمت، یہ ایثار کا جذبہ، یہ دوسروں کے آرام کی خاطر خود کو آرام نہ کرنے دینا اور دوسروں کی خاطر اپنے گھر کی ساری چیزیں پیش کرنا۔ یہ بہترین سبق ہے جسے سیکھنا چاہیے۔
امام جمعہ ممبئی نے نمازیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں نے اس خدمت میں کس، کس کو لگایا ہے، جوان، بوڑھوں کے ساتھ ساتھ چار پانچ سال کے بچے سروں پر پانی رکھے ہوئے، کھجور رکھے ہوئے ہیں، کوئی چیزیں رکھے ہوئے ہیں، نہیں تو ہاتھ میں ٹشو پیپر لئے ہوئے ہیں جو مسکرا کر زائر کو پیش کرتے ہیں۔ اگر پیچھے شربت بٹ رہا ہے تو چھوٹے چھوٹے بچے گلاس لئے ہوئے کہتے ہیں، پلیز پی لیجیے۔ آپ دیکھیں کہ کس طرح کمسن بچے زائرین کی خدمت کر رہے ہیں، بستر بچھا رہے ہیں، صفائی کر رہے ہیں، عراقیوں نے بتایا اگر ہم ان بچوں کی تربیت ایسی نہیں کریں گے تو آگے چل کے ہمیں خدمت گذار نہیں ملیں گے، ہمیں بھی اپنے خاندان میں اگر ہمارے گھر میں مجلسیں ہو رہی ہے، کوئی مذہبی پروگرام ہو رہا ہے تو ہمیں بھی اپنے بچوں کو خدمت کے لئے لگانا چاہیے۔ فرش بچھائیں، قالین بچھائے، بینر لگائیں، آنے والے کو پانی پلائیں، ایسا نہ ہو کہ سارے کام ہم کریں اور بچے دیکھتے رہیں، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے کس طرح سے ان کے بچے کام کر رہے ہیں اور یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ صرف دولت مند ہی نہیں بلکہ غریب طبقہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کو زائرین کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ شرماتے نہیں ہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے اسے ہم امام حسین علیہ السلام کی محبت میں ایثار کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button