نئی دہلی۔ حکومت ہند کے ذریعہ پیش کردہ وقف ترمیمی بل کو وقف جائیداد ہڑپنے کی سازش قرار دیتے ہوئے معروف و مشہور عالم دین اور انجمن حیدری (رجسٹرڈ) کے چیف پیٹرن مولانا کلب جواد نے آج کہا کہ وقف ترمیمی بل پیش کرنے کا حکومت کا مقصد وقف جائیداد پر قبضہ اور آپس میں بندر بانٹ ہے۔ یہ دعوی انہوں نے آج یہاں درگاہ شاہ مرداں میں "وقف ترمیمی بل 2024 مخالف تحریک” کے سلسلہ میں منعقد عظیم الشان کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر وقف جائیداد کے تحفظ کے سلسلہ میں حکومت کی نیت صاف ہوتی تو وہ وقف جائیداد کے اسٹیک ہولڈر سے بات کرتی اور ان کو اعتماد میں لیتی لیکن حکومت نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور کسی اسٹیک ہولڈر سے مشورہ بھی نہیں لیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وقف ترمیمی بل میں جو التزامات ہیں ان کے تحت وقف تریبونل سے لے کر سارے اختیارات ضلع کلیکٹر کو سونپ دیے گئے ہیں وہی اپنی مرضی کے مطابق وقف جائیداد کا فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ضلع کلیکٹر کے یہاں معاملہ جانے سے بدعنوانی کا نیا دروازہ کھلے گا۔ کلیکٹر اور دوسرے فریق آپس میں بندر بانٹ کریں گے۔
وقف بل میں کلیکٹر کو اختیار دینے اور وقف ڈیٹ پر اعتراض کرتے ہوئے تحریک تحفظ اوقاف کے روح رواں مولانا کلب جواد نے دو ٹوک کہا یہ بل نہیں بکواس ہے جس سے وقف برباد ہو جائیں گے۔
ہم موجودہ حکومت کو بھی خبردار کرتے ہیں کہ اگر تم نے یہ بل واپس نہیں لیا تو تم بھی انشاءاللہ تباہ و برباد ہو جاؤ گے۔ مولانا کلب جواد نے کہا کہ وقف بل کی شکل میں مسلمانوں کو صرف مثال کے طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے آگے یہ مندروں اور گردواروں پر بھی حملہ کریں گے اس لئے ہندوؤں کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سبھی لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ متحد ہو کر اس بکواس بل کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔
انجمن حیدری (رجسٹرڈ) کے جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ بہادر عباس نقوی نے کہا کہ اس بل میں 44 شق رکھی گئی ہیں جن میں کوئی ایک شق ایسی نہیں جس سے وقف کی حفاظت ہوگی۔ اس سے پہلے پروفیسر سید علی اختر نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کے حوالے سے حکومت کا منشاء سیاسی ہے اور وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریشن اور کمپوزیشن کی بات بھی صد فیصد سیاسی ہے کیونکہ جے پی سی میں جتنے ممبر ہیں اکثریت وہی ہے جو حکومت کر رہے ہیں۔
مولانا علی حیدر غازی نے کہا کہ وقف علی الخیر ہوتا ہے اور وقف علی الاولاد ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں وقف علی الاولاد کے لئے تو واضح ہے لیکن وقف علی الخیر سے متعلق مسائل میں حکومت کس سے پوچھے گی کیونکہ کمیٹی میں اہل ہنود تو رہیں گے مگر کیا دو عالم بھی ہوں گے جو حکومت کو بتائیں کہ وقف علی الخیر کا قانون کیا ہے۔