جس مسئلہ میں مجتہد نے فتوی نہیں دیا ہے یا شک و حیرت میں ہے تو بعض فقہاء کا ماننا ہے کہ اس مسئلہ میں دوسرے مجتہد سے رجوع کر سکتے ہیں: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور 10 صفر الاحزان 1446 ہجری کو منعقد ہوا جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے مجتہد کی رائے کے سلسلے میں فرمایا: مجتہد کا فتوی اور نظریہ خود اس کے لئے اور اس کے مقلدین کے لئے حجت ہے۔ دیگر مجتہدین اور دیگر مجتہدین کے مقلدین کے لئے حجت نہیں ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: یہ مسئلہ اسی طرح ہے کہ ایک بیمار جسے علم طب کی معلومات نہیں ہے وہ سو ڈاکٹروں میں سے کسی ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جو اہل علم اور اہل تجربہ ہے تو اس ڈاکٹر کی رائے اس کے لئے حجت ہے نہ کہ تمام ڈاکٹروں کے لئے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان تمام اختلافات میں جو طب، سیاست، ٹیلرنگ، کنسٹرکشن اور انجینئرنگ جیسے مختلف شعبوں کے ماہرین کے درمیان موجود ہیں تو جو غیر ماہر ان سے رجوع کرتا ہے تو چونکہ وہ نہیں جانتا ہے اس لئے ماہر کا قول و فعل غیر ماہر کے لئے حجت ہے۔آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے ایسے مجتہد کی ذمہ داری کے بارے میں کہا جو کسی معاملے میں نظریہ نہ رکھتا ہو یا شکوک و شبہات میں مبتلا ہو، فرمایا: اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں جب ایک مجتہد کو شک ہو اور دوسرا مجتہد اس مسئلہ میں رائے رکھتا ہو تو اس پر شک کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اور تقلید کرنا حرام ہے۔ لیکن بعض فقہاء کا خیال ہے کہ مجتہد اس معاملہ میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل کر سکتا ہے جہاں اسے ان کی رائے کے غلط ہونے کا یقین نہ ہو اور یہی میرا بھی نظریہ ہے۔