طالبان نے ایک ماہ میں 9 جہادی اسکول کھولنے کا کیا آغاز
افغانستان میں طالبان کی جانب سے 9 جہادی اسکولوں کی تعمیر کی اطلاعات ہیں جس سے ملکی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ اور جنگی تربیت کے حوالے سے کئی خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کی وزارت تعلیم کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ماہ بدخشاں، پنجشیر، پکتیکا، غزنی اور بغلان میں 9 نئے جہادی اسکولوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔
تاہم طالبان کے بنائے ہوئے دینی مدارس میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن ان اسکولوں کے طلبہ کے مطابق یہ اسکول صرف دینی تعلیم کے دائرہ کار میں کام کر سکتے ہیں اور ماضی میں سرکاری اسکولوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔
جہادی اسکولوں کہ جن میں طالبان کی قیادت دلچسپی رکھتی ہے، یہ بتایا گیا کہ دینی تربیت کے ساتھ جنگی تربیت اور انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان قیادت نوجوان نسل کو دینی اور جہادی اسکولوں میں جانے کی ترغیب دیتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ طالبان کے سات ہزار سے زائد سرکاری اسکول ہیں۔ صرف تین مہینوں نومبر 2023 سے فروری 2024 کے درمیان ان اسکولوں سے تقریبا 2500 طلباء فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے جہادی اسکول دینی شدت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور اس رجحان کے افغانستان کی نوجوان نسل کے لئے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
دریں اثناء، امریکی خصوصی انسپیکٹر برائے تعمیر نو افغانستان نے بھی ایک رپورٹ میں کہا کہ طالبان جہادی اسکولوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے انسانی امداد کا استعمال کرتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی سنجیدگی سے توجہ ان اسکولوں پر برقرار ہے اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ وہ ان مراکز کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں، یہاں تک کہ طالبان کے رہنما ہبت اللہ آخوند زادہ نے گذشتہ سال اپنے صوبائی دوروں کے دوران نیمروز میں جہادی اسکولوں کے اساتذہ سے ملاقات کی۔