5 صفر الاحزان سن 61 ہجری یوم شہادت حضرت رقیہ بنت الحسین علیہما السلام
5 صفر الاحزان سن 61 ہجری کو قید خانہ شام میں امام حسین علیہ السلام کے سینے پہ سونے والی چہیتی بیٹی حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا شہید ہو گئیں۔قیام حسینی کے شہداء میں ایک اہم شخصیت جس کی شہادت نے واقعہ کربلا اور قیام حسینی کو بقا عطا کی وہ قید خانہ شام میں امام حسین علیہ السلام کی تین سالہ بیٹی حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کی شہادت ہے۔ بعض مؤرخین نے حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کے وجود پر شک و شبہ ایجاد کرنے کی کوشش کی لیکن کتاب منتخب التواریخ نے ان تمام شکوک و شبہات کو ختم کر دیا۔ان تاریخی دستاویزات میں ایک ان تین سالہ بی بی کی قبر مبارک کی تعمیر و تجدید ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔ سید ابراہیم دمشقی اور ان کی اہلیہ نے کئی بار ان تین سالہ بی بی کو خواب میں دیکھا جو سید ابراہیم دمشقی سے کہہ رہی تھیں کہ آپ والی شام کے پاس جائیں اور ان سے میری قبر کی تعمیر کے لئے کہیں۔ کیونکہ قبر مبارک میں پانی آ رہا تھا جس سے جسم مطہر کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔ جب والی شام کو خبر ہوئی تو اس نے تمام شیعہ اور سنی علماء کو دعوت دی کہ غسل کر کے روضہ مبارک پر حاضر ہوں اور جس سے بھی قبر مبارک کے حجرے کے دروازہ کا تالا کھلے گا وہ قبر شگافتہ کرے گا۔ حجرے کا تالا صرف سید ابراہیم دمشقی کے ہاتھ سے کھلا، سید ابراہیم دمشقی سید مرتضی علم الہدی رضوان اللہ تعالی علیہ کی نسل سے تھے، انہوں نے قبر مبارک کو شگافتہ کیا اور جنازے کو تین دن کے لئے قبر سے باہر لائے اور قبر کی تعمیر کی۔اس واقعہ کی مزید تفصیلات آپ عالم و عارف علامہ سید ابن طاؤس رضوان اللہ تعالی علیہ کی کتاب لہوف میں پڑھ سکتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی بیٹی حضرت فاطمہ صغری یا رقیہ سلام اللہ علیہا کی المناک شہادت کے سلسلہ میں انہوں نے یوں تحریر فرمایا: حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا خرابہ شام میں اپنی پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے پاس تھیں تو شام کے بچوں کو آتے جاتے دیکھا۔ پوچھا: پھوپھی جان یہ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: نور نظر! یہ اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔ پوچھا: پھوپھی جان! کیا ہمارے پاس گھر نہیں ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں میری بیٹی! ہمارا گھر مدینہ میں ہے۔ جیسے ہی مدینہ کا نام سنا مدینہ میں اپنے بابا کی محبت کے خوبصورت یادیں ذہن میں آ گئیں۔ فوراً پوچھا: پھوپھی جان! ہمارے بابا کہاں ہیں؟ فرمایا: وہ سفر پر ہیں۔ بچی نے پھر کوئی اور سوال نہ کیا، قید خانے کے گوشے میں تشریف لے گئیں اور غم و اندوہ کے عالم میں سو گئیں۔ رات کا تھوڑا وقت گذرا، ظاہرا خواب میں بابا کو دیکھا، فوراً بیدار ہو گئیں۔ دوبارہ پھوپھی سے بابا کے بارے میں پوچھا اور بار بار بے چینی سے پوچھتی رہیں کہ قید خانہ شام میں کہرام مچ گیا۔ یہ خبر یزید کو پہنچی، اس نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھیج دیا جائے، سید الشہداء علیہ السلام کے سر مبارک کو ایک طبق میں رکھ کر قید خانے میں لایا گیا اور بیٹی کے سامنے رکھ دیا گیا۔ بی بی نے اس پر پڑے کپڑے کو ہٹایا تو سید الشہداء کے سر کو دیکھا سر کو اٹھا کے اپنی آغوش میں لے لیا۔ بابا کی پیشانی اور لبوں کا بوسہ لیا اور آہ و نالہ بلند کیا اور فرمایا: بابا جان! کس نے آپ کے چہرے کو خون سے رنگین کیا؟ بابا! کس نے آپ کی گردن کی رگوں کو کاٹا؟ بابا! کس نے مجھے اس کمسنی میں یتیم کیا؟ بابا جان! یتیم کس کی پناہ میں جائے تاکہ بڑا ہو جائے؟ بابا جان! اے کاش میں اپنے سر پہ مٹی ڈال لیتی لیکن آپ کا خون آلود چہرہ نہ دیکھتی۔ امام حسین علیہ السلام کی اس کم سن بچی نے اس قدر گریہ کیا کہ خاموش ہو گئی۔ سب سمجھے کہ وہ سو گئی لیکن جب قریب آئے تو پتہ چلا دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں۔ اسی وقت رات میں غسالہ آئی، بچی کو غسل دیا گیا اور اسی قید خانے میں دفن کر دیا گیا۔ حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک پر بہت سے معجزات و کرامات ہوئے ہیں۔ اموی حکومت کے مرکز میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی اس بیٹی کی قبر مبارک کی برکت سے کثرت سے ان لوگوں کو ہدایت ملی جو راہ ہدایت سے واقف نہ تھے اور اس کم سن شہیدہ کی مثال اس شمع جیسی ہے جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو نجات دیتی ہے۔