خبریںدنیامقالات و مضامینہندوستان

امروہہ کی عزاداری"خصوصیات اور امتیازات" ایك رپورٹ

ہندوستان کے پائتخت دہلی سے تقریبا 162 کلو میٹر کے فاصلہ پر مغربی یوپی میں امروہہ نامی چھوٹا سا شہر ہے۔ جس میں 72 امام باڑہ (بڑے چھوٹے مردانہ ، زنانہ) ہیں۔ گھروں میں چھوٹے چھوٹے امام باڑہ اس میں شمار نہیں ہیں شاید ہی کسی شہر میں اتنے امام باڑہ ہوں محرم کا چاند دیکھ کر سوا دو مہینہ عزاداری کا سلسلہ سب جگہ کی طر ح یہاں بھی جاری رہتا ہے۔

مختلف جلوس، مجالس، ماتم نوحہ، مرثیہ وغیرہ وغیرہ۔ مگر محرم کی 3 تاریخ سے 8 تاریخ تک صبح ساڑھے  آٹھ بجے سے شام ساڑھے آٹھ بجے تک بارہ گھنٹے کا روزانہ مخصوص جلوس برآمد ہوتا ہے، اس کی شان و ترتیب دیکھنے کے  قابل ہے۔  دن بھر میں یہ جلوس تقریبن 17 کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے، ان چھ تاریخوں میں جلوس جس امام باڑہ سے برآمد ہوتا ہے مقررہ وقت، راستوں اور روایتوں سے ہوتا ہوا ہر امام باڑہ میں جاتا ہے اور مقررہ وقت پر اسی امام باڑہ میں واپس پہونچ جاتا ہے جہاں سے برآمد ہوتا ہے ۔

اس جلوس کی خاص بات یہ ہے کہ سڑک پر ماتم نہیں ہوتا جلوس اس شان سے برآمد ہوتا ہے کہ سب سے أگے اونٹوں کی  قطار ہوتی ہے، أگے کے اونٹوں پر عماریاں ہوتی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جب مدینہ سے قافلہ چلا تھا اور کربلا پہونچا تو پردہ کا کتنا زبردست انتظام تھا۔ پیچھے کے اونٹوں پر بچے بیٹھے ہوتے ہیں ان اونٹوں پر پردہ نہیں ہوتا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ اسلام کی شہادت کے بعد لٹا ہوا قافلہ کربلا سے کوفہ ہوتا ہوا شام کس طرح پہونچا۔

اس کے پیچھے آرایش ہوتی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کسی روحانی بادشاہ کی سواری آ رہی ہے سب سے أگے باجا ہوتا ہے جو مومنین بجاتے ہیں تاشا ڈھول جھانج ہوتے ہیں اس میں کلمہ اور ماتمی دھنیں ہوتی ہیں، آرایش میں سب سے آگے روشن چوکی ہوتی ہے آرایش کے سب تختوں (تابوتوں) کو کندھوں پر اٹھایا جاتا ہے ۔روشن چوکی میں چند لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو نوبت اور نغیری بجاتے ہیں

ہر جلوس میں دو تین روشن چوکیاں ہوتی ہیں باقی آرایش میں گوٹے لچکوں سے سجے ہوے تخت ہوتے ہیں اس میں تابوت جھولا و آرام گاہ کی شبیہ ہوتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روحانی بادشاہ کی سواری آ رہی ہے

آرایش کے پیچھے ماتمی باجا ہوتا ہے جس کو شہر کے معزز بزرگ حضرات نوجوانوں کے ساتھ ملکر بجاتے ہیں ۔کئی  سیٹ جھانج و تاشا اور ڈھول کے ہوتے ہیں ماتمی دھنیں بجتی ہیں، انتہائی غمزدہ ماحول ہوتا ہے اس کے پیچھے علم ہائے مبارک کی قطار ہوتی ہے، مشکیزوں کے علم و مخصوص تلواروں کے علم ہوتے ہیں جو پھولوں سے لدے ہوے ہوتے ہیں تابوت و دلدل ہوتا ہے، آرایش کے تابوت سجے ہوتے ہیں  مگر اس تابوت اور دلدل پر سفید کپڑا ہوتا ہے جس پر لال دھبے ہوتے ہیں جو خون کی شبیہ ہوتی ہے

دلدل کے پیچھے ہزاروں مومنین کا مجمع ہوتا ہے سب لوگ صف بستہ اسی طرح ہوتے ہیں جس طرح نماز کے وقت صفوں میں ہوتے ہیں کہیں ایسا بھی ہوتا کہ أگے کے دس پندرہ حضرات  یعنی دو تین صفیں مخصوص نوحہ ” شہید کربلا  حسین” بلند آواز میں  پڑھتے ہیں ہر مصرعہ کا جواب پیچھے صف بستہ ہزاروں  کا مجمع جواب  میں تین مرتبہ حسین  حسین حسین  کہتا ہے پھر اگلا مصرعہ پڑھا جاتا ہے اور جواب میں حسین حسین حسین کہا جاتا ہے بہت دردناک منظر ہوتا ہے۔

جب یہ جلوس ایک امام باڑہ سے دوسرے امام باڑے میں پہونچتا ہے  تو دلدل اور تابوت زنانے امام باڑے  میں  یا  مخصوص گھروں  میں  چلا  جاتا  ہے  عورتیں زیارت اور ماتم برپا کرتی ہیں مرد امام باڑے میں مرثیہ پر مخصوص ماتم کرتے ہیں، مرثیہ پر ماتم کہیں نہیں ہوتا، سڑک پر یا نوحہ پر ماتم ان جلوسوں میں نہیں ہوتا، سب برہنہ پیر ننگے سر و زیادہ تر لوگ کالے لباس میں ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ امروہہ سادات کی مشہور بستی ہے، یہاں سے ہجرت کرنے والے سادات خود کو سادات امروہہ کے نام سے پہچنواتے ہیں۔

زمانہ قدیم سے سادات امروہہ اپنی خاص تہذیب و ثقافت کے سبب نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ علماء، فقہاء کے علاوہ شعر و ادب میں اس بستی سے تعلق رکھنے والوں نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہاں کے مرثیے، سوز و سلام، منقبت و قصائد کے ساتھ ساتھ نامور غزل گو شعراء اور دانشوروں نے اس بستی کو کے نام کو روشن کیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button