خبریںدنیاہندوستان

ہندوستان ؛وقف بل پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنا پڑا۔

ہندوستان ؛وقف بل پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنا پڑا۔

وقف املاک بل 2014 واپس

نئی دہلی ، لوک سبھا میں جمعرات کو وقف بل 2024 کی سخت مخالفت کے بعد اسے تفصیلی جائزے کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی جے پی سی کے پاس بھیج دیا گیا۔

مودی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور اوقاف ترمیمی بل کے متنازع نکات: بورڈ میں سبکدوش جج کی تقرری، بورڈ میں مقامی عوامی نمائندے کی تقرری، بورڈ میں دو خواتین کی تقرری لازمی، تربیت یافتہ افسران کی تقرری، اوقاف کی املاک ہوگی ڈیجیٹل، متنازع معاملوں کا تصفیہ 6 ماہ میں، ضلع کلیکٹر کرے گا وقت ملکیت کا تعین، چیئرمین کے اختیارات میں تخفیف، تمام مسلم مکاتب فکر کی نمائندگی، املاک کی لین دین کی آڈٹ، وقف کرنے کے لئے تحریری اعلان ضروری وغیرہ

اس سے قبل، اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیزو نے وقف بورڈ کو چلانے والے قانون میں ترمیم کا بل پیش کرنے کی اجازت طلب کی۔ کانگرس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی سخت مخالفت کی اور اسے آئین کے مختلف دفعات کے خلاف اور مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔ اپوزیشن نے اسپیکر اوم برلا سے ضابطہ 72 کے تحت بل کو پیش کرنے سے قبل بحث کرانے کا مطالبہ کیا، جسے اسپیکر نے قبول کر لیا۔

رولنگ پارٹی اور اپوزیشن کے تمام ممبران کے رائے سننے کے بعد مسٹر رجیجو نے کہا کہ اپوزیشن اراکین سیاسی دباؤ کی وجہ سے اس پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بل سب کے مفاد میں اور اس سے غریبوں کی مدد ہوگی۔ وقف املاک کے ذریعہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں 90 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور ان تمام عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے یہ بل عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ نئے بل میں کیس نپٹانے کا وقت 6 ماہ مقرر کیا گیا ہے۔‌ انہوں نے کہا کہ بل میں کی گئی شقوں سے آئین کے کسی آرٹیکل کے خلاف ورزی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کسی کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اس میں صدیوں سے حقوق نہ دینے والوں کو حقوق دیے گئے ہیں۔ یہ بل وقف بورڈ میں خواتین کی رکنیت کو لازمی قرار دیتا ہے اور اس میں ہر مسلم کمیونٹی کی خواتین کو شامل کیا جائے گا۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ ان کی حکومت یہ بل پہلی بار نہیں لائی ہے۔ حکومت نے 1995 میں جو وقف بل لائی تھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ بل جس مقصد کے لئے لایا گیا تھا اس میں مکمل طور پر ناکامی ملی ہے، انہوں نے کہا کہ نیا بل بہت غور و فکر کے بعد لایا گیا ہے اور سب کو اس بل کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت کروڑوں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے، بل کی مخالفت کرنے سے پہلے کروڑوں غریب مسلمانوں کے بارے میں سوچیں اور پھر مخالفت کریں۔ اس مسئلے پر کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈروں نے بل کی جم کر مخالفت کی، ایس پی صدر اکھلیش یادو میں کہا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سیاست کا حصہ ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کہ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا: یہ بل آئین کے آرٹیکل 14 15 اور 25 کے اصولوں کی سراسر نفی و خلاف ورزی کرتا ہے، یہ بل امتیازی تو ہے ہی من مانی کرنے کے مترادف بھی ہے، بل کو لا کر مرکزی حکومت ملک کے روایتی اتحاد کا تانا وانا توڑنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ بل انضمام اتحاد کے لئے نہیں بلکہ انتشار کے لئے کام کر رہا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔

لوگ سبھا میں این سی پی کے رکن پارلیمنٹ سپریا سونے نے کہا: میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ یا تو اس بل کو مکمل طور پر واپس لے لے یا اسے کسی اسٹینڈنگ کمیٹی کو نظر ثانی کے لئے سونپ دیا جائے۔ براہ کرم مشاورت کے بغیر ایجنڈے کے ساتھ آگے نہ بڑھیں۔ ایم پی کنی موزی نے کہا: یہ بل آرٹیکل 30 کی براہ راست خلاف ورزی کرتا ہے جو اقلیتوں کے اپنے اداروں کو سنبھالنے کے حق کے متعلق ہے۔ یہ بل ایک خاص مذہبی گروہ کو نشانہ بناتا ہے۔ کانگرس کے ایم پی کے سی وینوں گوپال نے لوک سبھا میں بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: یہ بل آئین پر ایک بنیادی حملہ ہے، مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

کانگرس نے پوچھا: کیا ایودھیا مندر بورڈ میں غیر ہندو شامل ہو سکتا ہے؟ واضح رہے کہ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے نے بھی اس بل کی حمایت نہیں کی۔

مسلم علماء نے اس بل پر اعتراض درج کرایا، اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ مجوزہ وقف بل کی نہ تو اس وقت ضرورت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ، وہیں آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ اگر بل وقف املاک کے خلاف ہے تو بورڈ اس کی سخت مخالفت کرتا ہے، ٹیلے والی مسجد کے واصف حسن واعظی نے کہا وقف ترمیم بل فورا واپس لے حکومت۔

متعلقہ خبریں

Back to top button