Jannah Theme License is not validated, Go to the theme options page to validate the license, You need a single license for each domain name.
اسلامی دنیامقالات و مضامین

2 صفر الاحزان سن 122 ہجری کو حضرت زید رضوان اللہ تعالی علیہ شہید ہوئے۔

حضرت زید امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند اور آپ کی والدہ ایک باعظمت اور باکردار خاتون تھیں جو امام علیہ السلام اور امام زادگان کے نزدیک محترم و مکرم تھیں۔عمرو بن خالد نے ابوالجارود سے روایت نقل کی کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ جناب زید ؒتشریف لائے تو جیسے ہی امام علیہ السلام کی نظر ان پر پڑی فرمایا: ’’هذا سید اهل‌بیتی والطالب باوتارهم‘‘ یہ ہم اہلبیت کی عظیم شخصیت ہیں، یہ دشمن سے انتقام لینے کے لئے قیام کریں گے۔ (رجال کشی، صفحہ١۵١؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ١٩۴)

جب امام جعفر صادق علیہ السلام کو جناب زیدؒ کی شہادت کی خبر ملی تو زبان پر کلمہ استرجاع “انا للہ وانا الیہ راجعون” جاری کیا اور فرمایا: میں اپنے چچا کی مصیبت پر اللہ سے اجر کا طالب ہوں۔ وہ میرے بہترین چچا تھے۔ بے شک وہ دنیا و آخرت میں میرے ساتھی تھے۔ میرے چچا نے اسی طرح شہادت پای جیسے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، امیر المومنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہداء نے شہادت پائی۔

امام علی رضا علیہ السلام نے جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے سلسلہ میں فرمایا: خدا کی قسم ! زید بن علیؑ ان لوگوں میں سے تھے جنکے سلسلہ میں یہ آیت ہے’’وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘ (سورہ حج، آیت۷۸) اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے۔ (عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨.)

جناب اربلی نے کشف الغمہ میں روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو ولاد کاہلی سے فرمایا: کیا تم نے میرے چچا زیدؒ کو دیکھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میں نے انہیں پھانسی پر لٹکتے ہوئے دیکھا اور مجھے لوگ دو گروہ میں تقسیم ملے، ایک گروہ خوش تھا اور دوسرا گروہ غمگین و سوگوار تھا۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جن لوگوں نے ان پر گریہ کیا وہ جنت میں ان کے ساتھ ہوں گے اور جو ان کے قتل پر راضی ہیں اور تنقید کر رہے ہیں وہ ان کے قتل میں شریک ہیں۔ (کشف الغمہ، جلد ۳، صفحہ ۴۴۲)

امام صادق علیہ السلام نے حمزہ بن حمران سے فرمایا: زید کی پیشانی مبارک سے تیر نکلنے کے بعد ان کے جسم سے روح نکل گئی۔ چنانچہ ان کے جنازے کو ایک چھوٹی نہر کے پاس لائے جو ایک باغ کے کنارے سے نکلی تھی ، وہاں قبر کھودی اور ان کے جنازے کو دفن کر کے پانی کو اس پر جاری کر دیا گیا (تاکہ دشمنوں کو ان کی قبر کا پتہ نہ چلے اور وہ قبر کی بے حرمتی نہ کر سکیں۔) لیکن جب جناب زید ؒ کو وہاں دفن کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ایک سندی غلام تھا ۔ وہ سندی غلام یوسف بن عمر کے پاس گیا اور اس کو جناب زید ؒ کی قبر کا پتہ بتا دیا۔یوسف بن عمر جناب زیدؒ کی قبر مبارک کے پاس آیا اور اس نے قبر کھلوا کر جنازہ کو باہر نکلوا کر سولی پر لٹکوا دیا جو چار سال تک سولی پر لٹکا رہا۔

خدا جناب زید کے قاتل اور انکی توہین کرنے والے پر لعنت کرے۔ (امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱؛ امالی طوسیؒ، صفحہ۶۵۴؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ ۱۷۳)کناسہ میں موجود جناب زید ؒ سے منسوب روضہ آپؒ کو سولی دئیے جانے والی جگہ کی جانب اشارہ ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button