لکھنو۔ آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا سید صائم مہدی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا یہ ساری مہربانی مسلمانوں شیعہ و سنی پر ہی کیوں۔ پہلے مسئلہ طلاق کی بات ہوئی پھر یو سی سی کا مسئلہ سامنے آیا۔ اب اوقاف میں ترمیم کی بات ہو رہی ہے۔ وہ بھی ایک دو نہیں 40 ترمیمات کی بات سننے میں آرہی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کوئی پہلو چھوٹ نہ جائے۔
واقف نے وقف کیوں کیا اس پر غور کرنا چاہیے۔ وقت ہمیشہ کار خیر کے لئے کیا جاتا ہے اور شیعوں میں وقف برائے عزاداری امام مظلوم و دیگر امور خیر کے لئے ہے۔ تو پھر اس میں ترمیم کی کیا ضرورت ہے؟ جہاں تک وقف خوروں کی بات ہے تو کس وقف کی خرابی سے تمام اوقات پر اثر نہیں ہوا، سزا اس کو ملنا چاہیے جو وقف خور ہو۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی نظر اوقاف کی جائیدادوں پر ہے جس صورت سے وقف حسین آباد حکومت کی ریزگاری ہے۔ 2013 وقف ایکٹ میں کسی بھی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ واقف کی منشاء کے مطابق وقف کو باقی رکھیں۔ مولانا نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کسان اور مزدور رہنماؤں یا دیگر سیاسی رہنماؤں سے گفتگو کر کے مسائل کو حل کرتی ہے لیکن کبھی بھی مذہبی امور کے لئے کسی حکومت نے شیعہ یا سنی علماء سے گفتگو نہیں کی۔ جبکہ مذہبی امور کے لئے علماء سے گفتگو ہونا چاہیے۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وقف ایکٹ میں کوئی ترمیم نہ کی جائے کیونکہ کوئی بھی ترمیم واقف کی منشاء کے خلاف ہوگی۔