خبریںدنیایورپ

برطانوی مسلمانوں پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے تشدد کا سلسلہ جاری، ان کے خلاف حکومت کے حفاظتی اقدامات میں اضافہ

برطانوی مسلمانوں پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے تشدد کا سلسلہ جاری، ان کے خلاف حکومت کے حفاظتی اقدامات میں اضافہ

دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے پرتشدد کاروائیوں نے برطانوی مسلمانوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔

برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف حالیہ فسادات سے متعلق تازہ ترین پیشرفت پر ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

ایک نیشنل واچ ڈاگ گروپ نے اتوار کو کہا کہ گذشتہ ہفتہ برطانوی مسلمانوں پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے تشدد جیسے عصمت دری اور موت میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے اور نفرت پر مبنی جرائم میں تین گناہ اضافہ ہوا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق برطانیہ کے مختلف شہروں میں کل 10 مساجد پر حملے کئے گئے ہیں یا انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں۔

اس سلسلہ میں برطانیہ میں موجود اسلامی مراکز اور ادارات نے برطانوی پولیس سے مساجد کی حفاظت میں اضافہ کی درخواست کی ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے لئے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ہنگاموں کے درمیان برطانوی حکومت نے مساجد کی حفاظت کے لئے 37 ملین ڈالر کے مالیاتی پیکج کی خبر دی ہے، یہ جدید تیز رد عمل جس پر عمل در آمد کیا گیا ہے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ خطرے، بدنظمی اور تشدد کی زد میں آنے والی مساجد کو سیکیورٹی فورسز کی موجودگی سے جلد تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ میں دائیں بازو کے گروہوں کے مظاہرے اتوار کو تیسرے روز بھی جاری رہے جس کے نتیجہ میں حکومت کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف منظم مظاہروں کے پھیلاؤ کے بعد مختلف برطانوی شہروں میں 90 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

لیول پول، بیسٹل، مانچیسٹر، ناٹنگھم اور بالفاسٹ سمیت برطانوی شہروں میں ہنگامے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ تھے اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم نے پرتشدد شکل اختیار کر لی تھی۔

مانچسٹر اور ایلڈ شارٹ میں مسلم مخالف مظاہرے ہوئے جہاں تاریکین وطن کے گھر ہیں، مظاہرین نے "انہیں ملک بدر کرو” "ان کی حمایت نہ کرو” اور "غیر قانونی افراد کے لئے کوئی اپارٹمنٹ نہیں ہے” جیسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پولیس کے علاوہ کچھ گروہ تاریکین وطن کی حمایت کرنے والے لوگ دائیں بازو کے گروہوں کے احتجاج کے سامنے قطار میں کھڑے ہو گئے اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے "مہاجرین کا یہاں استقبال ہے” کے نعرے لگائے۔

برطانوی حکومت کے امیگریشن پالیسیوں کے خلاف تقریبا ایک ہزار مظاہرین کے مظاہرے پیر کو ساؤتھ سپورٹ میں پرائمری اسکول کی‌  6، 7 اور 9 سال کی عمر کی لڑکیوں پر چھریوں کے حملے اور بچوں کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔

برطانیہ کے مختلف شہروں میں دائیں بازو کے گروپوں کے مظاہروں کے دوران مظاہرین نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے اور غیر قانونی تاریکین وطن بالخصوص مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔ "کشتیاں روکو” جیسے نعرے لگاتے ہوئے انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ غیر قانون امیگریشن سے نپٹنے کے لئے مزید اقدامات کرے۔

برطانوی حکومت نے کہا کہ وہ اظہار آزادی کے حق کو قبول کرتی ہے لیکن بدنظمی، خلل اور پرتشدد رویے کے لئے سنجیدہ رویہ اپنائے گی۔ برطانوی پولیس نے بھی مظاہرین کو ٹھک قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آنے والے دنوں میں مزید مظاہروں سے نمٹنے کے لئے مزید فورسز کو سڑکوں پر بھیجیں گے۔

ہفتے کے روز برطانیہ کے ہوم سکریٹری نے متنبہ کیا کہ ناقابل قبول خرابی میں ملوث کسی بھی شخص کو دیگر سزاؤں کے علاوہ جیل کی شرائط اور سفری پابندیوں کو سامنا کرنا پڑے گا۔

اس ہفتہ کے شروع میں نئے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے تشدد کی خرابی سے نپٹنے کے لئے ایک نئی قومی منصوبہ کی منظوری اور اعلان کیا کہ ان رہنما خطوط کا مقصد پر ششدد گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور پولیس فورسز کو مزید اختیارات دینے میں مدد کرنا ہے۔ تاہم بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں غیر قانونی تاریکین وطن کے خلاف مظاہرے آنے والے دنوں میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button