اسلامی دنیاپاکستانخبریںدنیا

پاکستان کے پارہ چنار علاقے میں خونریز جھڑپیں، شدت پسند سنیوں کی جانب سے شیعوں کا قتل عام

پاکستان کے پارہ چنار علاقے میں خونریز جھڑپیں، شدت پسند سنیوں کی جانب سے شیعوں کا قتل عام

شمال مغربی پاکستان میں مسلح تصادم میں 45 افراد شہید اور 170 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، پاکستانی شیعہ گروہوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے لئے بنیاد پر سنی گروہ اور وہابی سے وابستہ ایجنٹ ذمہ دار ہیں۔ پارہ چنار علاقے میں خونریز تصادم کا آغاز اس وقت ہوا جب بوشہرہ کے علاقے میں رہنے والے وہابی عناصر سے وابستگی رکھنے والے انتہا پسند سنیوں کے ایک خاندان نے ملی خیل علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ خاندان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں دونوں فریقین کے درمیان تصادم ہوا، تاہم تنازعہ کے دونوں جانب سے گروہوں کی تشکیل سے اسے فوری طور پر روک دیا گیا اور جنگ بندی 16 محرم تک جاری رہی۔ لیکن وہابی عناصر سے وابستہ شدت پسند سنیوں نے اگلے ہی دن مذکورہ سرزمین پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے حملے شروع کر دیے جس سے دونوں فریقوں کے درمیان مزید تصادم ہوا۔

اس کے بعد ان واقعات کے تسلسل میں ان علاقے کے سنی دیہات والوں کا علاقے کے شیعہ دیہات والوں کے ساتھ تنازعہ شروع ہو گیا اور جنگ فورا پارہ چنار کے دور دراز تک پھیل گئی۔ اس دوران شدت پسند سنیوں اور وہابی عناصر کی اشتعال انگیز کاروائیاں اور علاقے کے سنیوں کو شیعوں کے قتل عام کے لئے ان کے مشورہ تنازعات کی دائرے کار کو وسعت دینے میں کارگر ثابت ہوئے ہیں اور یہ نقطہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کہ زمین کے ایک ٹکڑے کا اختلاف صرف بہانہ ہے بلکہ یہ فساد پہلے سے طے تھا۔پارہ چنار کے مقامی ذرائع کے مطابق اس دوران اس شیعہ نشین بستیوں کو توپوں کے گولوں اور ماٹروں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور پارہ چنار کے آس پاس کے دیگر علاقوں میں سنی شدت پسندوں نے بھی ان ہتھیاروں کو بڑی مہارت سے استعمال کیا ہے۔ پارہ چنار کے مقامی ذرائع ایک طرف پاکستانی فوج کو اور دوسری طرف افغان طالبان کو پارہ چنار جنگ کا اصل مجرم سمجھتے ہیں۔پارہ چنار کے مقامی ذرائع نے اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا کہ پارہ چنار کی طرف جانے والے راستے بند ہیں اور اس علاقے میں ادویات اور علاج کی سہولیات تک رسائی بہت محدود اور بعض صورتوں میں ناممکن ہے۔پارہ چنار میں انٹرنیٹ بھی منقطع ہے اور آنے والے دنوں میں پارہ چنار کے لوگوں کے لئے اشیاء خرد و نوش کی فراہمی میں مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button