شرعی احکام کے نفاذ کے نام پر طالبان کے ظلم و ستم اور خشونت کا سلسلہ جاری
شرعی احکام کے نفاذ کے نام پر طالبان کے ظلم و ستم اور خشونت کا سلسلہ جاری
افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے جسمانی سزاوں کا استعمال شروع کر دیا، خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی، لوگوں کے لباس کے سلسلہ میں شدت اختیار کی، خواتین کے روزگار پر پابندی لگائی، ان کے سماجی مراکز جیسے پارک اور ورزش گاہوں میں حاضری کو محدود کر دیا۔ طالبان نے یہ سارے کام احکام شریعت کے نفاذ کے نام پر کیا۔
افغانستان کے مختلف علاقوں پر طالبان کے اقتدار کو مضبوطی ملتے ہی کوڑوں کی سزاؤں اور سنگسار کے احکامات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
طالبان کے زیر کنٹرول عدالتی نظام کی رپورٹس کے مطابق جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے اب تک 37 لوگ سنگسار ہوئے ہیں اور 106 خواتین سمیت 587 افراد کو سرعام کوڑے مارے جا چکے ہیں۔
طالبان کی عدالتوں میں 176 افراد پر مختلف جرائم کا الزام ہے جہاں یہ فیصلے جاری کئے گئے ہیں۔
سر عام کوڑے مارنا دو دہائیوں سے بند تھے لیکن طالبان نے 6 نومبر 2022 کو دوبارہ شروع کر دیا ۔
کچھ عرصہ قبل افغانستان میں اقوام متحدہ کے دفتر نمائندگی نے طالبان کی جانب سے مختلف قسم کی جسمانی سزاؤں اور پھانسیوں کے نفاذ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے طالبان سے بھی کہا کہ وہ پھانسی، کوڑے اور سنگساری سے باز رہیں۔
اے ایم یو کی گزشتہ تین سالوں کی رپورٹس کا جائزہ بتاتا ہے کہ 21 مارچ 2022 سے 21 مارچ 2024 کے درمیان 298 افراد کو کوڑے مارے گئے۔
21 مارچ 2022 سے اس سے 21 مارچ 2023 تک 44 افراد کو کوڑے بھی مارے جا چکے ہیں اور اس سال میں اب تک 240 سے زائد افراد کو سرعام کوڑے مارے جا چکے ہیں۔
21 مارچ 2022 سے 21 مارچ 2023 کے درمیان جن لوگوں کو کوڑے مارے گئے ان میں 73 خواتین ہیں۔
ان الزامات میں غیر اخلاقی تعلقات، گھر سے بھاگنا اور چوری شامل ہیں۔
4 مئی 2023 کو طالبان کی سپریم کورٹ نے 175 انتقامی سزائیں، 37 سنگسار اور چار دیوار گرانے کی سزا لواط کے جرم میں دی۔ عدالت نے اعلان کیا ہم نے یہ سزائیں شرعی احکام کے نفاذ میں شرعی احکام کے مطابق دی ہے۔
وسیع پیمانے پر بین الاقوامی مذمت کے باوجود افغانستان میں جسمانی سزا جاری ہے۔
انسانی حقوق کے تنظیموں نے طالبان کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا اپنے شہریوں کے ساتھ سلوک ظالمانہ ہے۔
انسانی حقوق کی ایک کارکن سیما نوری نے اس حوالے سے کہا: اس ملک میں شدت پسندی کے ساتھ اسلامی احکام نافذ کئے جاتے ہیں۔
طالبان کے رویے کے بارے میں شہریوں کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور طالبان نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے اور مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔
کابل کے ایک شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ دنیا کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
افغانستان کے بعض باشندوں نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: طالبان نے کھیلوں کے میدانوں کو کوڑوں کے میدانوں میں تبدیل کر دیا ہے اور ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے تمام مظالم کے سامنے خاموش نہ رہیں۔
دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے سخت جسمانی سزا کا استعمال کیا ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ شرعی قانون کے مطابق ہے جس نے بین الاقوامی اور ملکی غم و غصہ کو جنم دیا ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے اپنے روزانہ کے علمی جلسے میں فرمایا تھا: حدود کے نفاذ سے لوگوں میں نفرت پیدا نہیں ہونی چاہیے ورنہ اس کا نفاذ جائز نہیں ہے اور یہ حدود کے نفاذ کے لئے شرط ہے اور اس کے علاوہ یہ ان مسلمہ چیزوں میں سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی سیرت میں تھی، اور یہ ہر جگہ اور ہر وقت کو شامل ہے۔