اسلامی دنیاایرانخبریںشیعہ مرجعیت

صرف امام حسین علیہ السلام کے زیر گنبد یا حرم میں دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ پورے کربلا شہر میں دعا قبول ہوتی ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی

صرف امام حسین علیہ السلام کے زیر گنبد یا حرم میں دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ پورے کربلا شہر میں دعا قبول ہوتی ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور 16 محرم الحرام 1446 ہجری کو منعقد ہوا، جس میں حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے گنبد کے نیچے دعاؤں کی قبولیت کی روایتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں اور آپ کے بعد کوئی گنبد موجود نہیں تھا، فرمایا: جب یہ روایتیں جاری ہوئی ہیں تو بعض اوقات امام حسین علیہ السلام کی صرف ایک قبر تھی اور بعض اوقات قبر بھی نہیں تھی کیونکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے منہدم کر دیا تھا، حتی قبر کا نشان اور پتھر بھی نہیں تھا۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: روایات میں گنبد کی تعبیر فصاحت و بلاغت کے لئے استعمال کی گئی ہے جس طرح بعض اوقات کسی سے کہا جاتا ہے کہ ہم آپ کے زیر سایہ ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آپ ہم سے غافل نہیں ہیں‌۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: صرف امام حسین علیہ السلام کے زیر گنبد یا حرم میں دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ پورے کربلا شہر میں دعا قبول ہوتی ہے، کیونکہ جب یہ روایات صادر ہوئی ہیں اس وقت گنبد نہیں تھا تو ان روایات سے مراد کربلا میں اور امام حسین علیہ السلام کے قبر مبارک کے اطراف میں دعا قبول ہوتی ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے اذان و اقامت کے فقروں کو چھونے کے سلسلے میں فرمایا: اذان و اقامت کے الفاظ کو بغیر وضو چھونا کوئی خصوصیت نہیں رکھتا، البتہ خدا کا نام اللہ جیسے اللہ اکبر، جہاں بھی لکھا ہو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے مزید فرمایا: لہذا اذان و اقامت کے الفاظ کو بغیر وضو چھونے کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لیکن قرآن کریم کے کلمات، جیسے سورہ واقعہ کی آیت نمبر 79  لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ، (اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے) کے مطابق طہارت کے بغیر نہیں چھو سکتے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے اسمائے حسنی کو چھونے کے سلسلہ میں فرمایا: بغیر وضو کے خداوند عالم کے اسمائے حسنی کو چھونا جائز نہیں ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کا اجماع ہے، لیکن اسمائے حسنی اور قرآن کریم کے الفاظ کے علاوہ حتی معصومین علیہم السلام کے اسمائے گرامی کے سلسلہ میں بعض فقہاء احتیاط واجب کے قائل ہیں، اگرچہ احترام کا تقاضہ یہ ہے کہ بغیر وضو کے معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی بھی نہ چھوئے جائیں، لیکن قاعدتا یہ ایک احتیاط استحبابی مسئلہ ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 28 إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً، صرف ان کے شر سے بچنے کے لئے تقیہ کریں، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں تقیہ تھا، تقیہ بھی دوسرے مسائل کی طرح ہے اور علماء نے اس کے سلسلے میں بھی مطالب بیان کیے ہیں، تقیہ کبھی واجب ہوتا ہے، کبھی حرام، کبھی مستحب، کبھی مکروہ اور کبھی مباح ہوتا ہے یعنی ضرورت کے مطابق اس کا حکم بدلتا ہے، مثلا جناب عمار جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بہترین صحابی تھے اور اپنے ماں باپ کے ساتھ کہ وہ دونوں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بہترین صحابی تھے، وہ کفار کے چنگل میں پھنس گئے اور انہیں اذیتیں دی گئی، ان کا قصہ مشترک تھا اور ایک مشترکہ وقت اور مقام پر تھا لیکن ان میں سے دو نے تقیہ نہیں کیا یعنی جناب عمار کے والدین نے تقیہ نہیں کیا انہیں شہید کر دیا گیا، لیکن ان میں سے ایک یعنی حضرت عمار نے تقیہ کیا اور بچ گئے، تینوں کا عمل صحیح ہے تینوں کے حالات میں فرق ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button