خبر کے مطابق بنگلہ دیش میں کوٹہ نظام کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد ۲۵۰۰؍ سے تجاوز کر گئی ہے۔ڈھاکہ ، چٹاگونگ کے ساتھ دیگر علاقوں سے ملی اطلاعات کے مطابق منگل تک کل گرفتار ہونے والےمظاہرین کی تعداد ۲۵۰۰؍ ہو چکی ہے۔پولیس اور اسپتال سے حاصل ہونے والےاعداد و شمار کے مطابق ان مظاہروں اور تشددمیں اب تک ۱۷۴؍ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں کئی پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ملازمتوں میں کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہونے والے اس احتجاج نے شیخ حسینہ کے دور اقتدار کے بد ترین احتجاج کی شگل اختیار کر لی۔پورے ملک میں کرفیو نافذ ہے، افواہ اور خبروں کی ترسیل کو کم کرنے کیلئے انٹر نیٹ بند کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو کافی دقتوں کا سامنا ہے۔
اتوار کو سپریم کورٹ نے کوٹہ نظام کو ختم کر دیا جس میں ۱۹۷۱ء کی جنگ آزادی کے مجاہدین کے خاندانوں کا کوٹہ بھی شامل ہے۔احتجاج کر رہے طلبہ کے لیڈر نے پیر کو ۴۸؍ گھنٹوں کیلئے احتجاج موخرکردیا تھا،انہوں نے کہا کہ ہم نے محض اصلاح کیلئے اتنی جانوں کی قربانیاں نہیں دی ہیں۔
فوج کے مطابق حالات قابو میں ہیں جب کہ ڈھاکہ میں بڑے پیمانے پر فوج سڑکوں پر موجود ہے،کئی رکشا اور سیکڑوں افراد بھی سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں
بڑھتے حتجاج کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ۵۶؍ فیصد کوٹے کو گھٹا کو محض ۷؍ فیصد کر دیا ہے۔جو مظاہرین کے مطالبے کے قریب ترین ہےجبکہ طلبہ مجاہدین آزادی کوٹہ کو یکسر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔گزشتہ پیر کو شیخ حسینہ کے ترجما ن نے کہا تھا کہ وزیر اعظم نےسپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے تمام سرکاری شعبوں میں اسے نافذ کر دیا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس کوٹے کو اپنے حامیوں اور وفاداروں کے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ ۲۰۰۹ء سے بنگلہ دیش پر حکومت کر ہی ہیں ، اور بنا کسی حزب اختلاف کے انہوں نے اپنا چوتھا انتخاب بآسانی جیت لیا۔حالیہ مظاہروں نے ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔