اسلامی دنیاخبریںسعودی عرب

انسانی حقوق کے احترام کے عزم کے باوجود سعودی عرب میں سزائے موت میں دوگنا اضافہ

انسانی حقوق کے احترام کے عزم کے باوجود سعودی عرب میں سزائے موت میں دوگنا اضافہ

سعودی عرب میں 2024 کی پہلی ششماہی میں پھانسیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔

سعودی عرب میں پھانسیوں میں اضافہ کے حوالے سے ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ اور اس حوالے سے انسانی حقوق کے اداروں کے رد عمل پر توجہ دیں۔

سعودی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے احترام کے عزم کے باوجود پچھلے سال کی بنسبت اس سال پھانسیوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یورپ کی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں 15 جولائی 2024 تک قتل، دہشت گردی اور منشیات جیسے الزامات کے تحت 98 مرد اور دو خواتین سمیت 100 لوگوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔‌ یہ تعداد 2023 میں اسی مدت کے دوران ریکارڈ کی جانے والی 70 پھانسیوں کے مقابلے میں نمایاں اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینت روتھ نے اس سلسلے میں کہا: سعودی عرب میں بہت سی پھانسیاں سیاسی الزامات کی بنیاد پر دی گئی ہیں جیسے "قومی اتحاد کو خطرے میں ڈالنا” یا "سماجی سلامتی کو نقصان پہنچانا” وغیرہ، جس سے اس طرح کی کاروائیوں پر شک ہوتا ہے۔

کینت روتھ نے زور دے کر کہا کہ اختلافات کو خاموش کرنے کے لئے عدالتی نظام کو استعمال کرنا انسانی حقوق کو بہتر بنانے کے لئے سعودی عرب کے بیان کردہ وعدوں سے پوری طرح متصادم ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پھانسیوں کی تعداد میں یہ اضافہ سعودی وژن 2023 سے متصادم ہیں جسے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2017 میں قائم کیا تھا اور اس کا مقصد سعودی معیشت کو متنوع بنانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور غیر دینی سیاحت کو فروغ دے کر تیل پر انحصار کم کرنا ہے۔

خواتین کو گاڑی چلانے اور مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دینے والی سماجی اصلاحات کے باوجود سزائے موت میں اضافہ ان اصلاحات کی سنجیدگی کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہیں۔

سعودی عرب میں انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ ہلا بنت مزید التویجری نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا : سعودی عرب انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ میں بہترین بین الاقوامی معیارات کے حصول کی طرف بڑھنے کے لئے پرعزم ہے۔

تاہم، سعودی عرب کی یورپی تنظیم برائے انسانی حقوق کے سربراہ علی الدبیسی نے بیانات کو مضحکہ خیز اور ضروری حمایت کے بغیر قرار دیا اور کہا کہ حقیقی انسانی حقوق تنقید اور جواب دہی کے متقاضی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے سعودی عرب کے محقق جوئی شی نے بھی سعودی حکومت کی جانب سے غیر متشدد جرائم کے لئے سزائے موت کے استعمال کو محدود کرنے کے اپنے وعدوں سے مکر جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے مزید بتایا: ہم نے اس عمل کے بالکل برعکس نتیجہ دیکھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عدالتی نظام ناقابل یقین حد تک من مانی اور ظالمانہ ہے۔

سن 2023 میں سعودی عرب نے 172 افراد کو پھانسی دی جو 2021 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اور 2020 کے مقابلے میں سات گنا زیادہ ہے۔

یہ اضافہ منشیات کے جرائم کے سزائے موت پر عمل در آمد نومبر 2022 میں ان کی معطلی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ 2024 میں 100 میں سے 66 پھانسیاں قتل کے لئے دی گئی جبکہ دیگر 34 دہشت گردی اور منشیات سے متعلق جرائم کے لئے تھیں۔

یہ تعداد ججوں کو سزا دینے والے تعزیر کے ضوابط کے اطلاق میں اضافے سے پڑھی ہے۔

لیگل جسٹس آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والی لینا الہدول نے اس بارے میں بتایا: سعودی عرب میں اظہار رائے کی آزادی میں اضافہ انسانی حقوق کے حالات میں نمایاں بہتری میں معاون ثابت ہو سکتا ہے انہوں نے چیک اینڈ بیلنس میکانزم اور احتساب کے نظام کی اہمیت پر زور دیا۔

الہدول نے تاکید کی اگر سعودی حکام ناقدین کو خاموش کرتے رہتے ہیں اور ان کے جبر کو تیز کرتے ہیں تو عالمی برادری کو انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے لئے سعودی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں حالیہ پیش رفت نے انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں اور طریقہ کار پر نظر ثانی کرنے اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق عدالتی نظام میں انصاف اور شفافیت کو یقینی بنانے کے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button