11 محرم الحرام! یوم اسیران کربلا
11 محرم الحرام سن 61 ہجری کو میدان کربلا کا منظر انتہائی دردناک تھا، یتیموں کی یتیمی کا پہلا روز اور بیواؤں کی بیوگی کا پہلا دن تھا۔
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی تنہائی کا پہلا روز اور حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کی یتیمی کا پہلا دن تھا۔
عمر ابن سعد ملعون نے فوج یزید کے نجس لاشوں پر نماز پڑھی اور انہیں دفن کرایا۔ لیکن افسوس شہیدوں کا لاشہ بے گور و کفن تھا۔
عمر ابن سعد ملعون نے شہداء کے پاکیزہ بدنوں سے ان کے سروں کو جدا کرایا اور اہل حرم کو اسیر کرنے کا حکم دیا۔ فوج یزید نے امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم کو اسیر کر کے بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پاؤں میں بیڑی، گلے میں طوق خاردار اور کمر میں لنگر باندھ کر سواری پر سوار کیا گیا۔
جب تمام اسیر سوار ہو گئے تو ان کی سواریوں کو قتل گاہ کی جانب سے گزارا گیا، جہاں شہیدوں کے لاشے بے گور و کفن تھے، امام زین العابدین علیہ السلام کی نظر شہیدوں کے لاشوں پر پڑی تو چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، اس منظر کو دیکھ کر شریکۃ الحسین حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: اے یادگار برادر! میں تمہاری کیا حالت دیکھ رہی ہوں، صبر کرو، میں نے اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ یہاں میرے مظلوم بھائی کا روضہ بنے گا اور زائرین زیارت کے لئے آئیں گے۔
بھتیجے کو صبر کی تلقین دے دی لیکن جب خود حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی نظر بھائی کے بے گور و کفن لاش پر پڑی تو خود کو روک نہ سکیں اور فریاد کی۔ يا مُحَمّداه ، صَلّى عَلَيكَ مَليكُ السَّماءِ ، هذا حُسَينٌ بِالعَراءِ ، مُزَمَّلٌ بِالدِّماءِ ، مُعَفَّرٌ بِالتُّرابِ ، مُقَطَّعُ الأَعضاءِ ، يا مُحَمَّداه ! بَناتُكَ فِي العَسكَرِ سَبايا ، وذُرِّيَّتُكَ قَتلى تَسفي عَلَيهِمُ الصَّبا ، هذَا ابنُكَ مَحزُوزُ الرَّأسِ مِنَ القَفا ، لا هُوَ غائِبٌ فَيُرجى ولا جَريحٌ فَيُداوى (واہ محمداہ، (اے نانا رسول خدا) آسمان کے ملائکہ نے آپ پر نماز پڑھی، یہ آپ کا حسین خاک و خون میں غلطاں بے گور و کفن ہے، یا محمداہ! آپ کی بیٹیاں اور باقی ماندہ ذریت اسیر فوج ہے، یہ آپ کے فرزند (امام حسین علیہ السلام) ہیں جن کو پشت گردن سے ذبح کیا گیا، یہ غائب نہیں ہوئے کہ جو ہمیں تسلی دی جائے یا زخمی نہیں ہیں کہ جن کا علاج کیا جائے۔
ام المصائب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی یہ بین سن کر دوست و دشمن سب گریہ کرنے لگے۔
جب حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کی نظر اپنے مظلوم بابا کی لاش پر پڑی تو نوحہ کیا: ائے میرے بابا! آپ ہمارے برہنہ سروں کو دیکھیں، ہمارے شکستہ دلوں کو دیکھیں، ہماری پھوپھی زینب کو دیکھیں کہ جنہیں دُرّے مارے گئے۔
روایت میں ہے کہ اہل حرم سے دو بچے فرار کر کے قبیلہ بنی طی کے ایک شخص کے پاس گئے تاکہ وہ انہیں پناہ دے، لیکن اس ملعون نے انتہائی سنگدلی اور قساوت قلبی سے ان دونوں کو ذبح کر دیا اور ان کے سروں کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس لے گیا۔
11 محرم الحرام سن 61 ہجری کو اہل حرم کو اسیر کر کے کربلا سے کوفہ لے جایا گیا۔
10 محرم الحرام سن 61 ہجری کو شہیدوں نے اپنی شہادت پیش کر کے اسلام و انسانیت کو تحفظ بخشا، اس کے بعد گیارویں محرم سے رہائی تک اسیران اہل بیت نے اپنی اسیری، مظلومیت اور حکمت سے واقعہ کربلا اور مقصد حسینی کو محفوظ کیا اور رہائی کے بعد اپنے عمل سے اس کی تبلیغ و ترویج کی۔