اسلامی دنیاخبریںمقالات و مضامینمقدس مقامات اور روضے

8 محرم الحرام كی مناسبتیں

8 محرم الحرام سن 61 ہجری کو سرزمین کربلا پر کاروان حسینی میں قحط آب تھا، اطفال حسینی کی صدائے العطش سے کائنات کا ذرہ ذرہ سو گوار اور عزادار تھا۔

امام حسین علیہ السلام کے با وفا صحابی جناب یزید بن حصین ہمدانی نے جب یہ منظر دیکھا تو امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم پانی کے سلسلہ میں عمر ابن سعد سے گفتگو کریں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں اختیار (اجازت) ہے۔

امام علیہ السلام سے حصول اجازت کے بعد وہ عمر ابن سعد کے خیمے میں گئے لیکن اسے سلام نہیں کیا۔

عمر ابن سعد نے کہا: ائے ہمدانی! تم نے مجھے سلام نہیں کیا، کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟ کیا میں اللہ اور رسول کو نہیں پہچانتا؟

یزید بن حصین ہمدانی نے جواب دیا: اگر خود کو مسلمان سمجھتے ہو تو کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی عترت پر حملہ آور ہو اور کیوں انہیں قتل کرنا چاہتے ہو؟ یہ آب فرات حیوانات پی رہے ہیں، لیکن آل رسول پر پابندی ہے، کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ بھی سیراب ہوں، وہ تشنگی سے جاں بلب ہیں پھر بھی سمجھ رہے ہو کہ تم خدا اور رسول کو پہچانتے ہو؟

عمر ابن سعد نے سر جھکا لیا اور کہا: میں جانتا ہوں کہ اس خاندان کو اذیت پہنچانا حرام ہے، لیکن عبید اللہ ابن زیاد نے مجھے اس کا حکم دیا ہے، میں کشمکش میں ہوں کہ کیا کروں؟ کیا میں ری کی حکومت کو چھوڑ دوں کہ جس کا مجھے شدید اشتیاق ہے؟ یا اپنے ہاتھوں کو خون حسین سے رنگین کر لوں جبکہ جانتا ہوں کہ اس کا انجام جہنم ہے، لیکن کیا کروں کہ ری کی حکومت میری آنکھوں کا نور ہے، میں حکومت ری کی قربانی نہیں دے سکتا۔

یزید بن حصین واپس آئے اور پورا ماجرہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا اور کہا: عمر ابن سعد حکومت ری کی خاطر آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔‌

8 محرم الحرام سن 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام نے اپنے صحابی جناب عمرو بن قرظہ انصاری کو عمر ابن سعد کے پاس بھیجا تاکہ شب میں لشکر سے دور آپ اس سے ملاقات کریں۔ عمر نے ملاقات کا وعدہ کیا، جب رات آئی تو امام حسین علیہ السلام اپنے 20 اصحاب کے ہمراہ اور عمر ابن سعد اپنے 20 سپاہیوں کو لے کر وعدہ گاہ پر پہنچا۔

امام حسین علیہ السلام نے حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کے علاوہ باقی اصحاب کو حکم دیا کہ واپس چلے جائیں، اسی طرح عمر ابن سعد نے اپنے بیٹے حفص اور اپنے غلام کے علاوہ باقی سپاہیوں کو واپس بھیج دیا۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ائے پسر سعد! کیا تم مجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہو، تم اس خدا سے نہیں ڈرتے جس کی جانب پلٹنا ہے؟ تم بہتر جانتے ہو کہ میں کس کا بیٹا ہوں، کیا تم ان لوگوں کو چھوڑ کر ہماری طرف نہیں آ سکتے؟ جس سے تم خدا سے نزدیک ہو سکو۔

عمر بن سعد نے کہا: اگر میں اس گروہ کو چھوڑ دوں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے گھر کو منہدم نہ کر دیں۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہارے گھر کا انتظام کروں گا۔

عمر ابن سعد نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ہماری زمین و جائیداد نہ لے لیں۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میں اس سے بہتر زمین و جائیداد تجھے حجاز میں دے دوں گا۔

عمر بن سعد نے کہا: میں کوفہ میں اپنے اہل خانہ کے سلسلے میں خوفزدہ ہوں کہ کہیں ابن زیاد انہیں قتل نہ کرا دے۔

امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ وہ اپنے ارادے سے منصرف نہیں ہو رہا ہے تو آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا: تم کو کیا ہو گیا ہے؟ عنقریب خدا بستر پر تمہاری جان لے لے گا اور قیامت کے دن تمہیں معاف نہیں کرے گا، خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ بہت کم مقدار میں عراق کا گندم تمہارا نصیب ہوگا۔ عمر ابن سعد نے ہنستے ہوئے کہا: ہمارے لئے جو کافی ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button