الہ آباد کو گنگا جمنی تہذیب کا شہر کہا جاتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال محرم کے دنوں میں دکھائی دیتی ہے ۔ شہر کے امام باڑوں میں مسلمانوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ہندو عقیدت مندوں کی بھی ہوتی ہے ۔ الہ آباد میں ایک امامباڑہ ایسا بھی ہے جو نہ صرف ایک ہندو گھر میں آباد ہے ، بلکہ اس کا انتظام ہندو گھرانے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کرتے ہیں ۔ گزشتہ سات دہائیوں سے ایک ہندو گھر میں یہ عزا خانہ آباد ہے ۔
الہ آباد کا نہایت گنجان ’’گڑمنڈی‘‘ کا علاقہ شہر میں ہندو اکثریتی علاقہ تصور کیا جاتا ہے ۔ ملک کی تقسیم سے پہلے تک اس علاقہ میں مسلم خاندانوں کی اچھی خاصی آبادی ہوا کرتی تھی ۔ لیکن تقسیم ملک کے دوران یہاں بسنے والے بیشتر مسلم گھرانوں نے پاکستان ہجرت کر لی ۔ انہیں گھروں میں رام مورت گپتا کا گھر بھی شامل ہے، جہاں سات دہائیوں سے آج بھی عزاخانہ آباد ہے ۔ تقسیم ملک کے دوران اس گھر میں رہنے والے مسلم خاندان نے ایک مقامی ہندو رام مورت گپتا کو اپنا مکان فروخت کر دیا تھا ۔ رام مورت نے گھر میں موجود عزا خانے کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ محرم کے دنوں میں اس عزا خانے کو آباد رکھنے انتظام بھی کیا ۔
رام مورت گپتا کا انتقال 1998 میں ہو گیا ۔ لیکن ان کی تیسری نسل آج بھی محرم کے دنوں میں عزاخانے کو آباد کررہی ہے ۔ رام مورت گپتا کے عزا خانے میں گزشتہ چالیس برسوں سے مجلس پڑھنے والے ذاکر کا کہنا ہے کہ علاقے کے لوگوں کو اس عزا خانے سے گہری عقیدت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو خواتین اس عزا خانے سے اپنی مرادیں مانگتی ہیں ۔
اسی طرح کی گنگا جمنی تہذیب کی مثال الہ آباد کے پڑوسی کوشامبی ضلع میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ کوشامبی ضلع کا محبت پور گاؤں اپنے نام کی طرح ہی محبتوں سے لبریز ہے ۔ ہندو آبادی پر مشتمل یہاں کا محبت پور گاؤں امام حسینؑ کے چاہنے والوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اس گاؤں میں گزشتہ دو صدیوں سے عزاداری کی روایت چلی آ رہی ہے ۔ محبت پور گاؤں میں با قاعدہ امام باڑہ بھی قائم ہے ۔
محبت پور کے باشندے اودھیش کمار موریا کا کہنا ہے کہ دو سو برس پہلے گاؤں کے ایک شخص کو عدالت سے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی ۔ جب اس شخص کو جیل لے جایا جا رہا تھا ، تو راستے میں اس کو تعزیہ کا جلوس نظر آیا ۔ تعزیہ دیکھ کر اس نے منت مانگی کہ اگر وہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائے گیا تو اپنے گاؤں میں تعزیہ داری اور نوحہ خوانی کی شروعات کرے گا ۔ بعد میں یہ شخص موت کی سزا سے بچ گیا ۔ اس وقت سے لیکر آج تک گاؤں میں نویں اور دسویں محرم کو نہ صرف تعزیہ داری کی جاتی ہے ، بلکہ یہاں تعزیہ اور علم کا جلوس بھی نکالا جاتا ہے ۔
تاہم کورونا وائرس کے دوران انتظامیہ نے تعزیہ داری اور جلوس عزا کی اجازت نہیں دی تھی ۔ لیکن اس کے باوجود محبت پور گاؤں کے ہندو باشندوں نے اپنے روایتی طریقے سے شہیدان کربلا کو خراج عقیدت پیش کیا