ھندوستان ؛ محرم کا چاند نظر آتے ہی شہر عزا لکھنو میں عزاداری کا آغاز
حسینیہ آصفی سے شان و شوکت سے نکالا گیا شاہی ضریح کا جلوس
محرم کا چاند فلک پر نمودار ہوتے ہی گھر گھر عزا خانے سج گئے اور تعزیے اور ضریح رکھ دی گئیں۔ اسی کے ساتھ یا حسین یا حسین کی سدائیں گونجنے لگی۔ پہلی محرم کو نماز صبح کے بعد سے مجالس عزا کا آغاز ہو گیا، نماز صبح کے بعد شبیہ روضہ کاظمین اور شاہی جامع مسجد میں مجلس عزا منعقد ہوئی، اس کے بعد دن بھر لوگوں نے شہر کے مختلف امام باڑوں، کربلاؤں اور گھروں میں جا کر مجلسوں میں شرکت کی، خواتین نے بھی اپنے علاقوں کے گھروں میں جا کر نوحہ خوانی اور ماتم کیا، یہ سلسلہ دیر رات تک جاری رہا۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی یاد میں منعقد ہونے والے عشرہ مجالس کے آج پہلے دن شہر کے تمام امام باڑوں اور کربلاؤں میں مجالس کا آغاز ہو گیا جو 8 ربیع الاول تک جاری رہے گا۔ پہلی محرم کو کہیں امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے رخصت بیان ہوئی تو کہیں سفیر حسینی حضرت مسلم علیہ السلام کی مظلومیت بیان ہوئی۔ بارگاہ ام البنین منصور نگر میں مولانا سید علی ہاشم عابدی نے خطاب کیا، ناظم صاحب کے امام باڑے میں مولانا علی عباس خان، امام باڑہ جنت مآب میں مولانا سید سیف عباس نقوی، امام باڑہ غفرانمآب میں مولانا سید کلب جواد نقوی، امام باڑہ آغا باقر میں مولانا میثم زیدی، امام باڑہ تقی علی خاں میں مولانا ڈاکٹر ارشد علی جعفری، مدرسہ ناظمیہ میں مولانا حمید الحسن، آغا ہومیو میں مولانا اختر عباس جون، شیعہ کالج میں مولانا عباس ناصر، امام باڑہ افضل محل میں مولانا آغا روحی، چھوٹے امام باڑے میں ظہر بعد مولانا محمد میاں عابدی اور مغربین بعد مولانا عقیل عباس معروفی نے مجالس عڑا خطاب فرمائی۔
شاہ اودھ نواب آصف الدولہ بہادر کا قائم کردہ شاہی ضریح کا جلوس حسینیہ آصفی (بڑا امام باڑہ) سے برآمد ہوا اور چھوٹے امام باڑے پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ جلوس میں 22 فٹ کی موم اور 17 فٹ کی ابرق ضریح خصوصیت کا مرکز تھی، اشک بار آنکھوں، ہاتھوں میں علم اور لبوں پر یا حسین کی سداؤں کے ساتھ پہلی محرم کو جب بڑے امام باڑے سے شاہی ضریح برآمد ہوئی تو عزاداروں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلا تفریق مذہب و ملت امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والے جلوس میں شامل ہوئے، شہنائی پر جیسے ہی "مجلس غم ہے شاہ ہدی کی، آج پہلی ہے ماہ عزا کی” دھن بجی تو عزاداروں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اودھ کے روایتی انداز میں بڑی شان و شوکت سے شاہی ضریح کا جلوس نکالا گیا، آگے آگے شہنائی اور نقاروں پر ماتمی دھن بج رہی تھی تو پیچھے پی ایس سی اور ہوم گارڈ کے جوان بینڈ پر ماتمی دھن بجا رہے تھے، جلوس کے درمیان مرثیہ خوان اپنی درد بھری اواز میں مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کی رخصت کا منظر بیان کر رہے تھے، جلوس کے ساتھ چل رہے ہاتھی اور اونٹ شاہی جلوس کے شاہی ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ ہاتھی اور اونٹ پر لوگ سیاہ پرچم لئے ہوئے تھے۔