اسلامی دنیاخبریںدنیایمن

یمن میں پہلے سے زیادہ بھوک، آدھے سے زیادہ گھرانوں کے پاس خوراک نہیں ہے: اقوام متحدہ

بھوک نے یمن کو پہلے سے زیادہ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ آدھے سے زیادہ گھرانوں کے پاس کھانے کے لئے خوراک نہیں ہے۔

ہمارے ساتھی رپورٹر نے یمن کی تازہ ترین افسوسناک صورتحال پر رپورٹ تیار کی ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے بتایا کہ یمن کے آدھے سے زیادہ گھرانوں کے پاس بہ حد کافی خوراک نہیں ہے کیونکہ خراب معاشی حالات اور حوثیوں کے نام سے جانی جانے والی شیعہ زیدی ملیشیا کے زیر کنٹرول شمالی یمن میں لاکھوں لوگوں کو خوراک کی امداد کی ضرورت ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنے تازہ ترین نتائج میں کہا ہے: شدید خوراک کی کمی شمالی یمن کے کچھ حصوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جن میں الجوف، البادیہ، حجہ، عمران اور الحدیدہ ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے دسمبر میں شمالی یمن کے لئے خوراک کی امداد کو بجٹ کی رکاوٹوں اور حوثیوں کے نام سے مشہور زیدی شیعہ ملیشیا کے حکام کے ساتھ پروگرام کے پیمانے کو کم کرنے پر معاہدے کی کمی کی وجہ سے روک دیا تھا۔

اس عالمی ادارے نے یہ بھی بتایا کہ یمن کا جنوبی حصہ جس پر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کا کنٹرول ہے وہاں سب سے زیادہ خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔

یمن کی خانہ جنگی 2014 میں شروع ہوئی اور اس نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جس سے برامدات اور اس کی کرنسی کی قدر متاثر ہوئی۔

یمن حوثیوں اور اس ملک کی حکومت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے شدید اقتصادی تقسیم اور مسئلہ کا سامنا کر رہا ہے جس کے دوران دونوں فریقوں نے علیحدہ اور خود مختار مرکزی بینک اور یمن کی کرنسی ریال کے مختلف ورجن بنائے ہیں۔

یمنی ریال کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ ماہرین اقتصادیات یمنی کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی کی وجہ زر مبادلہ کے کم ذخائر اور خام تیل کی برآمد سے ہونے والی آمدنی میں کمی کو قرار دیتے ہیں اور اس سے لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے چینی، کھانے کا تیل، گیہوں کے آٹے اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: مئی میں یمن بھر کے بازاروں میں ضروری اشیاء خورد و نوش دستیاب تھیں لیکن انتہائی کمزور طبقہ انہیں خریدنے سے قاصر تھا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button