غزہ میں میں جنگ جاری، لبنان علاقائی تنازعات کا شکار
اگرچہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی سب سے زیادہ غزہ پٹی اور اسرائیل اس تباہ کن جنگ میں براہ راست ملوث ہیں، لیکن دیگر ممالک نے بھی اس کے زیر اثر ان کی جنگ میں مداخلت کی ہے۔
ہمارے رپورٹر ساتھی نے اپنی رپورٹ میں لبنان میں جنگ کے نامناسب حالات کا ذکر کیا ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی فوجی کاروائیوں کے تسلسل سے لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر تنازعات کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔
سعودی عرب، جرمنی، کویت، ہالینڈ اور کینیڈا نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ لبنان چھوڑ دیں اور وہاں کا سفر کرنے سے گریز کریں۔
گزشتہ 9 ماہ کے دوران غزہ پٹی میں وسیع پیمانے پر تباہی ہزاروں شہریوں کی ہلاکت اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کے باوجود نہ صرف تنازعات جاری ہیں بلکہ لبنانی حزب اللہ حماس کی حمایت میں اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ جنوبی لبنان کے باشندے کس تباہی کا شکار ہوں گے۔
لبنان میں حزب اللہ نے لبنان کے بحران کے حل کے لئے فرانس کے اقدام کو نظر انداز کیا اور وائٹ ہاؤس کی کوششوں کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے اس نے لبنانی امور میں امریکی صدر کے سینیئر مشیر اور خصوصی نمایندہ آموس ہوسٹین کو منفی اور مایوس کن جواب کے ساتھ واشنگٹن واپس کر دیا۔
حزب اللہ کے مطالبات کے سامنے لبنانی حکومت ہتھیار ڈال کر ملک کو بچانے کے لئے چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ لبنانی حکومت آج بھی لبنان کی تباہی کا منظر دیکھ رہی ہے، حزب اللہ کے خلاف لبنان کے سیاسی قائدین کے خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ لبنان کی اصل طاقت حزب اللہ ہے لبنانی حکومت نہیں ہے۔
نیتن یاہو کی حکومت جسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جنگ جاری رکھنے میں تل ابیب کا مقصد طویل مدتی ڈیٹرنس حاصل کرنا نہیں ہے جیسا کہ اس نے 2006 سے 2023 کے درمیان جنوبی لبنان میں تجربہ کیا ہے۔ بلکہ اسرائیل مستقل ڈسٹنس کی تلاش میں ہے تاکہ فوجی کاروائیوں کی تکرار کو روکا جا سکے جیسا کہ 7 اکتوبر کو جنوبی لبنان میں اسرائیل کی جنوبی سرحدوں پر جو کچھ ہوا۔
اسرائیلی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کے حملے میں جو کہ خطے میں تنازعات میں ایک اہم موڑ تھا 1200 سے زائد افراد جن میں زیادہ تر عام شہری تھے ہلاک اور 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
حماس کے زیر کنٹرول غزہ پٹی کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس دن سے اب تک اسرائیل کے حملوں میں تقریبا 38 ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں اور اس پٹی کی زیادہ تر عمارتیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو چکے ہیں۔
اب اسرائیل پر حماس کے حملے کے متاثرین کے 100 سے زائد خاندانوں نے ایران، شام اور شمالی کوریا کی حکومتوں کے خلاف امریکہ کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے اور کم از کم چار ارب ڈالر کے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ شکایت جسے ہتک عزت مخالف یونین نے پیر یکم جولائی کو واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں کی تھی، یہ حماس کے حملے سے متعلق کسی بیرونی ملک کے خلاف معاوضے کا سب سے بڑا دعوی ہے اور یہودی تنظیم کی طرف سے حمایت یافتہ پہلا دعوی ہے۔
اس شکایت میں تین غیر ملکی حکومتوں پر حماس کو مالی اور فوجی امداد بھیجنے کا الزام لگایا گیا ہے۔