ایشیاءخبریںدنیا

ہجومی تشدد پر اویسی اور عمران مسعود کا حکومت پر سخت حملہ

اتر پردیش کے سہارنپور سےکانگریس کے رکن پارلیمان  عمران مسعود نے الیکشن کےبعد ملک بھر میں مسلمانوں پر ہونےوالے حملوں اوران کی لنچنگ کا معاملہ پیر کو اپنے خطاب کے دوران  پارلیمنٹ میں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بار بار کہا جارہا ہے کہ  ملک میں   قانون بنائے جارہے ہیں مگر بھیڑ بے قابو ہوکر(اب بھی ) لوگوں کو مار رہی ہے۔ میرے پارلیمانی حلقے کے ۳؍ لوگوں کو چھتیس گڑھ میںمارا گیا، اتر پردیش کے  علی گڑھ میں بھیڑ نے ایک شخص کا قتل کردیا، آگرہ میں ۲؍ لوگوں نے اس  لئے خود کشی کرلی کہ وہ پولیس کے مظالم سے تنگ آگئے تھے۔ فیروز آباد میں ایک شخص پولیس کی قید میں مار دیاگیا جسے پولیس صحیح سلامت لے گئی تھی۔ ملک میں جس طرح کے حالات بن رہے ہیں ان میں آپ قانون سخت کرنے کی بات کررہے مگرقانون سخت کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ قانون کو نافذ کرنا پڑے گا،اس پر عمل کرنا پڑے گا۔

  لوک سبھا میں صد ر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک میںاے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اپنے خطاب میں مرکزی حکومت کو کئی موضوعات پر گھیرا ۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کے ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے نعرے کوبھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ۴؍ جون سے اب تک ۶؍ مسلمانوں کو ہجومی تشدد میں مارا گیا ہے۔ ۱۱؍ مسلمانوں کے گھر گرائے گئے ہیں لیکن حکومت خاموش ہے۔ تقریباً ۸؍منٹ کی اپنی تقریر میں اویسی نے اسرائیل اور ینیوں کی نسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے۔

اسدالدین اویسی نے اپنے خطا ب میںکہا کہ لوک سبھا میںصرف ۴؍ فیصد مسلمان ہیں۔بی جےپی کیلئے مسلمانوں کی رائے کوئی یثیت اس ملک میں یکمشت ووٹ بینک کی کبھی نہیںرہی ۔اعلیٰ ذات یکمشت ووٹ بینک ہے۔نریندر مودی کو جوووٹ ملا ہے وہ مسلمانوں سے نفرت اور ہندوتوا کی وجہ سے ملا ہے۔ یہ آپ کی جیت نہیں ہے، یہ اکثریت نوازی کی جیت ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا ہے۔ ہندوستان کے آدھے نوجوان بے روزگار ہیں۔ ۶؍ پیپرلیک ہوئے ہیں۔ نوکری کیلئے لوگ روس جانے کیلئے تیار ہیں۔

 اسدالدین اویسی نے کانگریس اوربی جے پی دونوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’جب آئین بن رہا تھا اس وقت ووٹر لسٹ اور ریزرویشن کی بات آئی تھی۔ ہندو اور مسلمان دونوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ آئین ایک کتاب نہیں ہے جسے چوما جائے۔ یہ ایک علامت ہے جس میں ہر فرقہ اورمذہب سے تعلق رکھنے والوں کی رائے کی اہمیت ہے۔مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ صرف ۴؍ فیصد مسلمان جیت کر آتا ہے۔میں کہنا چاہوںگا کہ کبھی پڑھو نہرو نے کیا کہا تھا۔ اوبی سی سماج کے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد آج اعلیٰ ذات کے برابر ہوچکی ہےلیکن ۱۴؍ فیصد ہوتے ہوئے بھی مسلم نمائندگی صرف ۴؍  فیصد ہے۔‘ اویسی نے اس موقع پر سی ایس ڈی ایس کے ڈیٹا کا بھی ذکر کیا ۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button