اگر امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کربلا سے چلے جاتے تو وہ حرام کے مرتکب ہوتے اور جو لوگ وہاں سے چلے گئے وہ حرام کے مرتکب ہوئے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور 21 ذی الحجہ 1445 ہجری بروز جمعہ منعقد ہوا، جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے جناب مسلم ابن عقیل علیہ السلام کو کوفہ بھیجنے اور شب عاشور اصحاب کو کربلا سے جانے کی اجازت میں فرق بتاتے ہوئے فرمایا: حضرت مسلم ابن عقیل علیہ السلام کوفہ بھیجنے کی داستان اس لئے ہے کہ وہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے وکیل تھے اور امام حسین علیہ السلام نے انہیں کوفہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ہر ممکن طریقے سے انجام دیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: لیکن شب عاشور جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جانے کی اجازت دی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے فرمایا: میں نے اپنی بیعت واپس لے لی ہے، لیکن کربلا سے اصحاب کا چلا جانا قطعا جائز نہیں تھا بلکہ حرام تھا۔ کیوں کہ امام حسین علیہ السلام نے ان سے یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارا چلا جانا جائز ہے بلکہ فرمایا تھا میں نے اپنی بیعت واپس لے لی ہے کہ اگر تم چلے گئے تو تم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: کیونکہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے دیگر اقوال اور دیگر تمام روایتوں اور دلائل جو کہ امام معصوم کے دفاع کی ذمہ داری پر دلالت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کربلا سے نکلنا جائز نہیں تھا اور اگر امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کربلا سے نکل جاتے تو وہ حرام کے مرتکب ہوتے اور جو لوگ وہاں سے چلے گئے وہ حرام کے مرتکب ہوئے۔