اسلامی دنیاخبریںمقالات و مضامینمقدس مقامات اور روضے

22 ذی الحجہ ! یوم شہادت حضرت میثم تمار رضوان اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت میثم امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے صحابی اور سچے شیعہ تھے۔

جناب میثم بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے، لہذا اسی قبیلے سے منسوب کئے گئے ہیں۔ بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: “میرا نام سالم ہے”؛ حضرت علی(ع) نے فرمایا: “پیغمبر اکرم(ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے والدین نے تمہارا نام “میثم” رکھا تھا”، میثم نے تصدیق کردی؛ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: “اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبر(ص) نے بھی تمہیں پکارا ہے”، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت “ابو سالم” ٹھہری۔ ان کی دوسری کنیت “ابو صالح” تھی۔

 چونکہ کوفہ میں آپ کی کھجور کی دکان تھی اس لئے آپ کو تمار کہتے ہیں

جب جناب میثم انجام حج کے لئے مکہ مکرمہ گئے اور وہاں سے مدینہ منورہ پہنچے تو ام المومنین حضرت ام سلمی سے ملاقات کی تو آپ نے جناب میثم سے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اکثر امیرالمومنین علیہ السلام سے تنہائی میں گفتگو فرماتے تھے جس میں تمہارا تذکرہ فرماتے۔

اسی طرح بی بی ام سلمی نے بیان کیا: ائے میثم! فرزند رسول امام حسین علیہ السلام تمہارا ذکر خیر کرتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: مجھے میثم سے محبت ہے

ایک دن صالح بن میثم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں درخواست کی کہ کوئی حدیث سنائیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تم نے اپنے والد سے حدیث نہیں سنی؟ تو انھوں نے کہا کہ جب میرے والد کی شہادت ہوئی اس وقت میں کمسن تھا

میثم عصر  کون؟

 امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی اور خاص شاگرد جناب ابو بصیر جنکے ثقہ ہونے کے سلسلہ میں علماء کا اجماع ہے اور انکی بیان کردہ تمام روایات امامیہ کے نزدیک معتبر ہیں۔ ایک دن جناب ابو بصیر نے اپنے استاد امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: مولا آپ مجھے علم سکھانے میں مضایقہ فرماتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے پوچھا کون سا علم؟ جناب ابو بصیر نے کہا وہی علم جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے جناب میثم کو تعلیم فرمایا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تم میثم نہیں ہو۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تمہیں کچھ تعلیم کیا ہو اور تم نے اسے دوسروں کو نہ بتایا ہو؟ انھوں نے جواب دیا فرزند رسول ایسا ہی ہوا (یعنی دوسروں سے بیان کیا ہے) تو مولا نے فرمایا پس تم رازدار نہیں ہو کہ تمہیں وہ علوم سکھائے جائیں۔

مفسر قرآن میثم تمار

ایک بار جناب میثم مدینہ تشریف لے گئے۔ آپ نے ابن عباس جیسے مفسر قرآن سے کہا کہ جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ تو جناب ابن عباس نے قلم و کاغذ منگایا اور جناب میثم کے بیانات کو قلمبند کیا۔

غیبی خبریں:

جناب میثم کو ماضی کی طرح حال اور مستقبل کا بھی مکمل علم تھا۔

1۔ صالح بن میثم سے روایت ہے کہ ابوخالد تمار کا بیان ہے کہ ہم میثم کے ساتھ کشتی کا سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک تیز آندھی آئی تو جناب میثم نے اطراف پر نظر کرتے ہوئے فرمایا: “ابھی ابھی حاکم شام دنیا سے گذر گیا۔” ایک ہفتہ بعد شام سے آئے قاصد نے تصدیق کر دی۔

(رجال کشی، ص 80.)

2۔ قیدخانہ میں جناب مختار سے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا جائے گا۔ تم زندہ رہو گے اور انکے قاتلوں سے بدلہ لو گے۔ ابن زیاد جو مجھے شہید کرے گا تم اسے قتل کرو گے۔

اس روایت سے جہاں جناب میثم کی علمی عظمت ظاہر ہوتی ہے وہیں جناب مختار کی بھی فضیلت عیاں ہے۔

 3۔ جناب میثم نے فرمایا: خدا کی قسم یہ امت دس محرم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے نواسہ کو شہید کرے گی اور اس دن خوشی منائے گی۔ اور یہ واقعہ ضرور رونما گا۔ جب سورج کو خون آلود پانا تو سمجھ لینا امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔ (بحار الانوار، ج 45، ص 202)

 شہید کربلا حضرت حبیب بن مظاہر کو انکی شہادت سے آگاہ کیا۔.4۔

خطابت اور شہادت

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ائے میثم ایک دن آئے گا جب تم سے مطالبہ ہوگا کہ مجھ سے اظہار برات کرو تو تم کیا کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا مولا میں ایسا ہرگز نہ کروں گا تو آپ نے فرمایا تو پھر تمہیں قتل اور مثلہ کر دیا جائے گا۔ جناب میثم نے کہا میں صبر کروں گا تو مولا نے فرمایا: ایسی صورت میں تم جنت میں میرے ہمراہ ہو گے۔”

آخر وہ وقت آ ہی گیا جب آپ سے مولا علی علیہ السلام سے اظہار بے زاری کا مطالبہ ہوا تو آپ نے ابن زیاد کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا۔ اس نے آپ کے ہاتھ پیر کٹوا کر دار پر لٹکانے کا حکم دیا۔ ایسے عالم میں خطیب منبر سلونی کے پاسبان و شاگرد یعنی منبر دار کے وحید و بے نظیر خطیب نے دار سے آواز دی ائے لوگوں جسےبھی میرے مولا کی حدیث سننی ہو وہ سن لے۔ میں تمہیں قیامت تک کے حالات بتاتا ہوں۔ لوگوں کا ایک ہجوم آپ کا بیان سن رہا تھا کہ آپ کی زبان کاٹ دی گئی

22 ذی الحجہ 60 ہجری واقعہ کربلا رونما ہونے سے پہلے ہی آپ کی شہادت ہو گئی۔ کئی دن تک جنازہ دار پہ ہی رہا۔ جسے بعد میں چند چاہنے والوں نے خفیہ طور پر اتار کر دفن کر دیا۔

مزار شہید خطیب

کوفہ میں مسجد اعظم کوفہ سے تھوڑے فاصلہ پر آپ کا روضہ مبارک ہے جو چاہنے والوں کی زیارت گاہ ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button