خبریںدنیا

یورو 2024 کے کارکنوں نے چینی اسپانسرز کی ایغوروں سے جبری مشقت کرانے والوں سے رابطے پر تنقید کی

تحقیقاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اسپانسر ہائی سینس، علی بابا اور بی وائی ڈی کی سپلائی چینز جبری مشقت اور ایغوروں کے استحصال سے آلودہ ہیں۔

ہمارے ساتھی رپورٹر نے اس سلسلے میں رپورٹ تیار کی ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے 2024 کے یوروپی فٹ بال ٹورنامنٹ کے منتظمین یوفا کو چینی کمپنیوں کے ساتھ مالی حمایت کے معاہدہ کرنے پر تنقید کی ہے، جو ایغوروں سے جبری کام کراتے ہیں یا ان پر نظارت کرتے ہیں۔

ہائی سینس، علی بابا اور بی وائی ڈی کمپنیوں کے اشتہارات سوشل میڈیا اور جرمنی کی میزبانی میں 14 جون سے 14 جولائی تک ہونے والے ٹورنامنٹ کے مواد میں دیکھے گئے ہیں۔

چین پر بین الپارلیمانی اتحاد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لوک ڈی پلفورڈ نے کہا: بدقسمتی سے چینی پیسے کا لالچ بہت سے لوگوں کے لیے بہت مضبوط رہا ہے جو ممکنہ طور پر اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: اس سے قطع نظر کہ ان میں سے بہت سی کمپنیاں جبری مشقت میں ملوث ہیں اور ان کی سپلائی چَین میں بڑے مسائل ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کے مالی معاون کے طور پر رہنے میں ان کی مزاحمت بہت مضبوط رہی ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ بدقسمتی سے حرص اور مفاد پرستی انسانی حقوق پر غالب آگئی ہے جو اس مسئلے کی بنیاد ہے۔

اسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹیٹیوٹ کی مارچ 2020 کی رپورٹ میں اس بات کا ثبوت ملا کہ 82 عالمی برانڈ، بشمول ہائی سینس، چین کی سب سے بڑی ٹی وی بنانے والی کمپنی اور الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی نے ان پرزوں کا استعمال کیا ہے جنہیں ایغوروں نے جبری مشقت سے تیار کیا تھا۔

دنیا بھر میں ویڈیو کی نگرانی کرنے والے آی پی وی ایم کے مطابق علی بابا اپنے صارفین کو چہرے کی شناخت کراتا ہے جو انہیں ایغوروں کی شناخت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

2017 سے چین نے سنکیانگ میں تقریبا 1800000 ایغوروں کو گرفتار کر کے جبری مشقت کے کیمپوں میں بھیجا ہے۔

چین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کیمپ پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز تھے اور تب سے بند کر دیے گئے ہیں۔

ایک بیان میں یوفا نے اس بات پر زور دیا کہ یوفا یورو 2024 ایک کھیلوں کا یونٹ ہے جو انسانی حقوق کے لیے پرعزم ہے۔

اس بیانیہ میں کہا گیا کہ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان مقابلوں میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فریم ورک اور عمل کو مقابلوں میں شامل تمام لوگوں کے لیے ڈیزائن اور نافذ کیا جائے گا۔

تاہم یوفا نے چینی کمپنیوں پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا۔

چین پر بین الپارلیمانی اتحاد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لوک ڈی پلفورڈ کا کہنا ہے کہ اگر رائے عامہ یوفا پر دباؤ نہیں ڈالتی تو چینی کمپنیاں ایغور جبری مشقت کا استحصال جاری رکھیں گی۔

انہوں نے ریڈیو ایشیا آزاد کو بتایا: ہمیں امید تھی کہ حالات بدل جائیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کام بغیر شور شرابے کے جاری رہیں گے اور حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔

برلن میں ورلڈ ایغور کانگرس کے ڈائریکٹر غیور قربان نے کہا کہ حکومتوں کو اس سلسلے میں کمپنیوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا: ہم یوفا کمپنی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ انسانی حقوق کے مسائل پر مغربی حکومتوں کی دوہری کارکردگی کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنیوں اور پیسے پر مبنی اداروں کے ایسے رویے سامنے آئے ہیں جو انسانی اقدار سے متصادم ہیں۔

ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں حکومتوں کی ذمہ داری سنگین ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button