ہمالیہ کے خونی پہاڑوں سے لاشیں اٹھانے والی ٹیم نے اس سال کے آپریشن میں چار لاشیں اٹھائیں ہیں۔ گو کہ اس بات کو ایک دہائی سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن نیپال سے تعلق رکھنے والے شرپا سیرنگ جان اپنی زندگی کا وہ دن کبھی نہیں بھول سکتے جب انھوں نے دنیا کی چوتھی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ لوتسے سے چند میٹر کے فاصلے پر پہلی مرتبہ ایک لاش دیکھی تھی۔
مئی 2012 میں شرپا سیرنگ ایک جرمن کوہ پیما کے ساتھ ماؤنٹ لوتسے پر بطور گائیڈ تھے۔ اس دوران ایک لاش ان کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ انھیں لگا یہ لاش چیک کوہ پیما کی ہے جن کی کچھ دنوں قبل ایک قریبی مقام پر ہلاکت ہوئی تھی۔
شرپا سیرنگ کو تجسس ہوا کہ چیک کوہ پیما چوٹی سر کرنے کے اتنے قریب تھے تو ان کی ہلاکت کیسے ہو گئی۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کا ایک دستانہ غائب ہے۔
سیرنگ کہتے ہیں کہ ’شاید دستانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ہاتھ رسی سے پھسل گیا ہو۔ انھوں نے اپنا توازن کھو دیا ہو گا اور وہ پتھر پر آ گرے ہوں گے جس سے ان کی موت واقع ہوئی ہو گی۔‘
یہ لاش وہیں پڑی رہی اور ہر گزرتے کوہ پیما نے اسے دیکھا۔
شرپا سیرنگ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ 12 سال بعد وہی اس لاش کو اٹھائیں گے۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب 46 سال کی عمر میں وہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے لاشیں اٹھانے والی اس ٹیم کا حصہ بنے جس میں 12 نیپالی فوجی اور 18 شرپا شامل ہیں۔
نیپالی حکومت نے 2019 میں پہلی مرتبہ ہمالیہ سے لاشیں اٹھانے اور صفائی کی مہم کا آغاز کیا۔ اگرچہ ماضی میں بھی حکومت لاشیں اٹھاتی رہی ہے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب حکام نے آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے پانچ لاشوں کی واپسی کا ہدف مقرر کیا۔ پہاڑ کی بلندی پر واقع اس مقام کو ڈیتھ زون بھی کہا جاتا ہے۔
اس دوران حکومت پہلی بار ڈیتھ زون سے چار لاشیں واپس لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جبکہ کم اونچائی پر کیے گئے 54 دن طویل ایسے ہی ایک آپریشن میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ اور 11 ٹن کچرا ہٹایا گیا تھا۔ یہ آپریشن پانچ جون کو اپنے اختتام پر پہنچا۔