افغانستانخبریں

اقوام متحدہ نے افغانستان کی عالمی برادری میں واپسی کے لئے خواتین کے حقوق کی بحالی اور پابندیوں کا خاتمہ شرط رکھی ہے

اقوام متحدہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں بین الاقوامی برادری میں افغانستان کے مؤثر داخلے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کے خصوصی نمائندے روزا اوتن بائیفا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وضاحت کی کہ دوحہ مذاکرات میں طالبان حکومت کی شرکت اس حکومت کو رسمیت نہیں دیتی۔‌

طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک نے اس حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیوں کہ یہ حکومت جو اسلام کی ایک الگ اور مخصوص تشریح کرتی ہے کہ جس کے سبب خواتین کی آزادی کو سلب کرنے جیسے اقدامات ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے ان پالیسیوں کو “جنسی رنگ و نسل” بتایا اور اوتن بائیفا نے اس حوالے سے کہا: خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیاں، خاص طور پر تعلیم کے میدان میں افغانستان کو اہم انسانی سرمائے سے محروم کرتی ہے اور افغانستان کے مستقبل کو برباد کرنے اور دماغی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پابندیاں طالبان حکومت کے جواز کو زیر سوال لاتی ہیں اور اور ایسے سفارتی حل کے حصول سے روکتی ہیں جو افغانستان کی عالمی برادری میں واپسی کا باعث بن سکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس عالمی برادری نے اس سلسلہ میں ایک کام شروع کیا تھا جس میں دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام نمائندوں کی میٹنگ کے ذریعہ افغانستان کے ساتھ اپنے وعدوں کو مضبوط کرنے پر بات چیت کی گئی تھی جس میں افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کہ جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔

طالبان حکام نے 30 جون اور یکم جولائی کو قطر میں طے شدہ مذاکرات کے تیسرے دور میں اپنی شرکت کی تصدیق کی، 

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوٹیرس کے ترجمان نے کہا کہ تیسرے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں بات چیت بھی جاری ہے۔

اوتن بائیفا نے بتایا کہ ایک مشترکہ اور مربوط بین الاقوامی شراکت داری طالبان کے لئے ایسی پالیسیاں اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہیں جس سے وہ بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل ہو سکے۔

افغان بل سوسائٹی کے نمائندوں کی عدم موجودگی پر تنقید کے جواب میں انہوں نے تصدیق کی کہ وہ 2 جولائی کو دوحہ میں ایک الگ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر نصیر احمد فائق نے مذاکرات کی میز پر سول سوسائٹی اور خواتین کی عدم موجودگی پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور اس پروگرام پر تنقید کی جس میں سیاسی عمل اور انسانی حقوق شامل نہیں ہیں۔

اس حوالے سے اوتن بائیفا نے وضاحت کی کہ طالبان کے ساتھ رسمی مذاکرات میں کمپنیوں، بینکوں اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ پر توجہ دی جائے گی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button