خبریںدنیا

ہجومی تشدد کے خلاف پارلیمنٹ میں سخت قانون لایا جائے: مولانا ارشد مدنی

صدر جمعیتہ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے چھتیس گڑھ میں ہوئے ماب لنچنگ کے واقعے پر اپنے گہرے دکھ اور سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اگرچہ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں ملک کے عوام کی اکثریت نے فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے مگر اس کے باوجود پچھلے کچھ برسوں سے فرقہ پرستوں نے لوگوں کے دل و دماغ میں منافرت کا جو زہر بھرا ہے وہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے، چھتیس گڑھ کا یہ واقعہ اس کا ثبوت ہے انہوں نے کہا ایک بار پھر شر پسند عناصر نے درندگی اور حیوانیت کا مظاہرہ کر کے انسانیت کے دامن کو داغدار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود اس طرح کے افسوسناک واقعات کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے، جبکہ 17 جولائی 2018 کو اس طرح کے واقعات پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا، عدالت نے اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے مرکز کو الگ سے ایک قانون بنانے کی ہدایت کی تھی، اب اگر اس کے بعد بھی اس طرح کے انسانیت سوز واقعات رونما ہو رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں قانون کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہے، انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اگر پکڑے بھی گئے تو ان کا کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی پارلیمنٹ میں الگ سے کوئی قانون نہیں لایا گیا، چند ریاستوں کو چھوڑ کر کسی نے بھی ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی نہیں کی۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا ہجومی تشدد ملی نہیں ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے، اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی پارٹییاں اس کے خلاف کھل کر میدان میں آئیں اور ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں،  انہوں نے یہ بھی کہا کہ تازہ واقعے سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے نہ تو مرکز سنجیدہ ہے اور نہ ہی ریاستیں۔  بدلی ہوئی سیاسی صورتحال میں اس کے خلاف پوری مضبوطی کے ساتھ سیکولر پارٹیوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔ آخر اس طرح کب تک مٹھی بھر لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ایک خاص فرقے کو اپنی حیوانیت کا شکار بناتے رہیں گے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button