اس سال پنجاب میں خسرے کے تقریباً 13 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
عام طور سے خسرہ زیادہ تر بچوں میں ہوتا ہے لیکن اب بڑے بھی محفوظ نہیں ہیں۔
پنجاب میں خسرہ کی تشویشناک صورتحال پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون حامد نے بتایا: ہمارے پاس ہر عمر کے بچے خسرہ سے متاثر ہو کر آرہے ہیں۔ جہاں تک رہی بات کہ سب سے زیادہ مریض کہاں سے آرہے ہیں؟ تو ہم نے دیکھا ہے کہ لاہور، ملتان اور راولپنڈی ہاٹ سپاٹ شہر ہیں۔ جبکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی اس کا پھیلاؤ دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس کی شدت بہت زیادہ نہیں ہے۔
انھوں نے مزيد بتایا کہ اس وقت بچوں کے علاوہ وہ مائیں جو متاثرہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو رہی ہیں۔ جبکہ کچھ کیسز مردوں کے بھی سامنے آئے ہیں۔
زیادہ تر ماہرین کے مطابق خسرہ کے پھیلاؤ اور وبا کی صورت اختیار کرنے کی بنیادی وجہ اس کا تیزی سے ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہونا ہے۔ ڈاکٹر ہارون کے مطابق جب بھی کوئی بچہ یا بڑا کسی متاثرہ شخص کے ساتھ بغیر احتیاطی تدابیر کے رابطے میں آتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی اس وائرس کا شکار ہوجائے۔
ڈاکٹرز کے مطابق خسرہ سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ خسرہ کے مریض سے دور رہا جائے۔ مریض کو قرنطینہ میں رکھا جائے اور اس کے استعمال کی چیزیں بھی الگ کر دی جائیں۔ مریض کی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے