چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سینیٹ میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں ان اقتصادی ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔جو عوام کی معاشی مشکلات کو سمجھتے ہیں، بجٹ 2024 میں تنخواہ دار طبقے پر لگائے جانے والے ٹیکسز ناقابل برداشت بوجھ ہیں۔ان سے اقتصادی بدحالی میں اضافہ ہو گا۔کم سے کم تنخواہ 36000روپے طے کرنے والوں کو اتنا علم نہیں کہ ایک کرایہ دار شخص اتنے کم روپیوں میں گھر کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا، پاکستان غیر معمولی معدنی وسائل کا مالک ہے لیکن حکمرانوں کی بدانتظامی کے باعث بحرانوں میں جکڑا ہوا ہے، عوام کو غربت سے نکالنے یا ملک کی اقتصادی مضبوطی کے لیے اس بجٹ میں کوئی نکتہ سرے سے موجود نہیں، پاکستان میں صنعت کار معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں۔
انڈسٹریز کو تالے لگنے شروع ہو گئے ہیں، اس بجٹ میں جن لوگوں نے عوام کو لوٹا ہے وہ غاصب ہیں، حالیہ بجٹ میں عوام کے حقوق کی بدترین پامالی کی گئی، آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر حکمران پوری طرح عمل کر رہے ہیں، ٹیکسز عوام کا مال ہے یہ اشرافیہ کی مراعات اور عیش و عشرت پر خرچ نہیں ہونا چاہیے، مارکیٹوں میں جائیں حکومت نام کی کوئی شئے ہے ہی نہیں۔
یہ بجٹ پاکستان کی عوام کو غریب سے غریب تر بنائے گا اور امیروں کو امیر تر، یہ طبقاتی نظام ملکی سالمیت اور مستقبل کے لیے بہت خطرناک ہے، ملک کی ساٹھ فیصد آبادی پر مشتمل جوانوں کے لیے اس بجٹ میں کچھ نہیں ہے ان کی طاقت اور صلاحیتوں کو کیسے بروئے کار لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے، ہم ہمسایہ ملک سے گیس اور تیل کیوں نہیں لے رہے، وہ اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کر چکے ہم نے کیوں نہیں کی، بس امریکہ ناراض نا ہو بے شک عوام کو پھانسی لگا دی جائے، عوام غربت کی چکی میں پس جائے، یہ ملک دشمن بجٹ ہے، عوام کے خلاف معاشی جنگ ہے، غریب والدین مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں، وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں نہیں کر سکتے۔